محسن نقوی نے خو د کو آئیڈیل وزیر اعلیٰ ثابت کر دکھایا۔

ڈاکٹرعارفہ صبح خان :تجا ہلِ عا رفانہ                                 
لاہو ر کی خوبصورتی کو جہاں آلودگی نگِل رہی ہے۔ وہاں پانچ سال بزدارحکومت اور دیگر اوقات میں وزارتِ اعلیٰ کی بندر بانٹ نے انتہائی متا ثر کیا۔ لاہور کو نا صرف مسلسل پانچ سال نظر انداز کیا گیا بلکہ دونوں ہاتھوں سے لو ٹا گیا ہے لیکن نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے محض چند ماہ میں لاہور کا نقشہ بدل کر رکھ دیا ہے۔ لاہور میں بڑی اور بہترین تبدیلیاں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی مرہونِ منت ہیں۔ ایک طرف نگران وزیر اعظم ہیں جن کا سارا فوکس اپنی پروجیکشن اور غیر ملکی دوروں پر ہوتا ہے۔ انہوں نے اس سارے عرصے میں عوامی بہبود کا ایک بھی کام نہیں کیا۔ انھوںنے ہر وقت تھری پیس سوٹ پہن کر فوٹو سیشن، پروجیکشن اور سیر سپاٹوں کا شوق چڑھا رہتا ہے جب اس تناظر میں ہم محسن نقوی کا کردار دیکھتے ہیں تو بے انتہا خوشی اور فخر محسوس ہو تا ہے ۔ دیگر وزرائے اعلیٰ کی کارکردگی نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے مقابلے میں زیرو نظر آتی ہے۔ لاہور میں محسن نقوی نے جس طرح سڑٖکوں کی مرمت کرائی۔ اوور ہیڈبرجز اور انڈر پاسز اور سگنل فری راستے بنوائے ہیں۔ اُس سے لاہور کا سار ا منظر بدل گیا ہے۔ پورا لاہور پانچ سالوں میں کھنڈر بن گیا تھا بلکہ پانی پت کا میدان لگنے لگا تھا۔ پانچ سالوں میں بھگوڑے، راشی اور کرپٹ سابق وزیر اعلیٰ بزدار نے لاہور کو بدبو اور آلائشوں کی آمجگا ہ بنا دیا تھا۔ جگہ جگہ گندگی ، غلاظتوں اورکوڑے کے انبار لگ گئے تھے۔ ہر طرف تعفن تھا۔ لاہوریوں نے پہلی بار اتنی گندگی برداشت کی اور سموگ کے مسائل بھی آلودگی کی وجہ سے بزدار حکومت میں پیدا ہوئے۔ جس کی سزا ابھی تک لاہوری بھگت رہے ہیں۔ محسن نقوی نے سموگ ختم کروانے کی کئی بہترین تدا بیر کیں۔ اگر محسن نقوی دو سال مزید وزیر اعلیٰ رہ گئے تو 2025ء میں لاہوریوں کوسموگ جیسی مہلک صورتحال سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔ محسن نقوی نے لاہو ر میں صفا ئی کا بہترین انتظام کیا ہے۔ اسکے علاوہ  75سالوں میں پولیس کا نظا م کوئی بہتر نہیں کر سکا تھا۔ مگر پہلی مرتبہ محسن نقوی نے لاہور پولیس کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ چا لیس سمارٹ پولیس سٹیشنز کی تکمیل کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی ہے اور پولیس اصلاحات کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں۔ پہلی بار پولیس فرض شناس اور خوش اخلاقی کے راستے پر چل پڑی ہے۔ محسن نقوی کا سب سے اہم، نیک اور بہترین کام ہسپتالوں کی حالتِ زار درست کر نا ہے۔ ہسپتالوں میں جو لوٹ مارمچی ہو ئی ہے اور ڈا کٹرز ڈیوٹی پر نہیں ہوتے۔انتظامیہ مال بنانے اور کرپشن میں ملوث ہو تی ہے۔ سٹاف کام نہیں کرتا۔ ہسپتالوں میں مریضوں سے غفلت کو تا ہی اور بدتمیزی کی جاتی ہے۔ مشینیں خراب اور عملہ غا ئب ہو تا ہے۔
 سرکاری ہسپتالوں میں جو غدر مچا ہو ا تھا۔ وہ محسن نقوی کی شب و روز محنت، ہسپتا لوں کے دوروں اور اقدامات سے یکسر بدل گئے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں اب حالات قدرے بہتر ہو ئے ہیں ورنہ مریضوں کے ساتھ ہسپتالوں میں جانوروں جیسا سلوک کیاجاتا تھا اور لگتا تھاجیسے مریض ہسپتال کی جگہ جنگل میں آ گئے ہیں۔ محسن نقوی نے ہسپتالوں کے مزاج رویے اور صورتحال کو تبدیل کیا ہے۔ حال ہی میں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے نا جائز تجا وزات کے سلسلے میں سخت آپریشن شروع کیا ہے۔ تجاوزات مافیا نے لاہور کا نقشہ بدل کر بد ہئیت اور بدنما کر رکھا تھا۔ ناجائز تجاوزات کے ضمن میں ابتک چار سو افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔ چھ سو تھڑے مسمار کئے گئے ہیں۔ ریسٹورینٹس اور دوکانیں سیل کی گئی ہیں۔ درجن بھر ٹرکوں کا سامان ضبط کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر ناجائز تجاوزات پر آپریشن مستقل جاری ہے۔ ناجائز تجاوزات سے لوگوں کو آنے جانے میں دِقت، پارکنگ کے مسائل بلکہ پیدل چلنے تک میں شدید مسائل کا سامنا درپیش ہے۔ سبزی پھل اور ریڑھیوں والوں نے فٹ پاتھ اور سڑکوں پر قبضے جما رکھے ہیں۔ دوکانداروں نے فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر ناجائز قبضے کر رکھے ہیں۔ غلط جگہوں پر پارکنگ سے لوگوں کو مسائل کا سامنا ہے۔ بیس ٖفٹ کی سڑک پر چھ سے دس فٹ کی سڑک یا گلی میں اپنے گھروں کے ریمپ، تھڑے، سیڑھیاں، باڑھ یا لان بنا رکھے ہیں جس سے بیک وقت دو گا ڑیوں تو کیا، ایک گاڑی گزرنا بھی محال ہے۔ لوگوں کی زندگیاں عذاب میں آ گئی ہیں۔ سارا اندرون شہر یہی کہا نیاں سُنا رہا ہے۔ جگہ جگہ بجلی کے تار سڑکوں، دیواروں، فرش اور سروں پر لٹکے ہوئے ہیں۔ بجلی کی تاروں سے ہر سال درجنوں بن موت کی اموات ہو تی ہیں لیکن کبھی کسی حکومت نے زندگی سے کھیلنے والی اِن جان لیوا تا روں کو درست نہیں کیا۔ اسی طرح محسن نقوی کو اس بات کا بھی نو ٹس لینا ہوگا کہ لاہوریوں کا جہاں دل چا ہتا ہے وہا ں خود ساختہ، بے ڈھنگے اور خطرناک سپیڈ بریکرز بنا لیتے ہیں۔ لاہو ر پوری دنیا کا واحد شہر ہے جہاں شا ید ایک لاکھ سپیڈ بریکرز ہیں جنکو نہ متوازن بنایا گیا ہے نہ اُن پر آئی کیچر ہیں نہ اُن پر ییلو نشا نات ہو تے جس کی وجہ سے ہر روز سینکڑوں حا دثات ہو تے ہیں۔ سپیڈ بریکر از خود بنانے پر بھاری جرمانے ہو نے چا ہیں اور لاہور کے تمام سپیڈبریکرز کو ختم کر نا چا ہیے کیونکہ بار بار جھٹکے لگنے سے لوگوںکو جسمانی عوارض اور خا صکر کمر درد لاحق ہو رہے ہیں۔ محسن نقوی کو ٹریفک معا ملات اور قوانین پر بھی سختی سے عملدامد کرا نا چا ہیے کیونکہ لوگ روزانہ حا دثات میںجانیں کھو رہے ہیں۔ اسکے علاوہ پرا ئس کنٹرول کمیٹی اور تدیسی مسا ئل بھی توجہ طلب ہیں۔ محسن نقوی کا تعلق ہماری کمیونٹی اور پروفیشن سے ہے۔ وہ بنیادی طو ر پر زیرک صحافی ہیں۔اسی لیے اُنکا وژن گہرا اور وسیع ہے۔ محسن نقوی نے ہمارا سر اونچا کیا ہے۔ محسن نقوی کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کام پر زیادہ دھیان دیتے ہیں اور خود نمائی سے پرہیز کرتے ہیں نہ اپنی پرو جیکشن کے لیے زیادہ تقریریںاور بیانات جھاڑتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہـ:کام : خود اپنے منہ سے بولتا ہے۔ چا ندچڑھتا ہے تو سب کو دکھائی دیتا ہے۔ محسن نقوی نے بعض مذہبی، فرقہ وارانہ، لسانی، تہذیبی معا ملات کو بھی سلجھایا ہے۔ محسن نقوی نے اپنی ذہانت، لیاقت، تدبر، معا ملہ فہمی، دُور اندیشی اور مصلحت بینی سے لاہور اور لاہوریوں کے دل جیت لیے ہیں۔ اگر وہ اربوں کھربوں لاہور پر لُٹا سکتے ہیں تو انھیں چا ہیے کہ پنجاب کے پینشنرز پر بھی رحم کھائیں۔ چند ہزار کے اضا فے سے بو ڑھے لا غر کمزور بیمار اور مفلوک الحال پینشنروں کی زندگی میں بھی سکون چین آ جا ئیگا۔ لوگ ہاتھ اٹھا کر دعا ئیں دینگے۔ یہ معا شرے کا سب سے کمزور اور سفید پوش طبقہ ہے۔ دوسرے جو پینشنرز کی گروپ انشورنس کا مسلئہ ہے۔ یہ ریٹا ئرڈ ملازمین کا بنیادی حق اور ضرورت ہے۔ تمام صوبوں نے ریٹا ئرڈ ملازمین جو زندہ ہیں اُنکو گروپ انشورنس جو وہ ماہانہ بنیادوں پر اپنی تنخواہ میں سے کٹواتے رہے ہیں، انکو گروپ انشورنس کی رقم ادا کر دی ہے ، جو اُنکا بنیادی حق ہے۔ صرف پنجاب میں ظلم ہو رہا ہے۔ اُنکی پینشن بھی کم بڑھائی گئی ہے نہ انھیں گروپ انشورنس دی گئی ہے نہ پہلے حکومتوں کی طرح ریٹائرڈ ملازمین کو بنے بنائے گھر دئیے گئے ہیں۔حدتو یہ ہے کہ ان ریٹا ئرڈ ملازمین کو پلاٹوں پر ہی ٹرخا دیا گیا لیکن وہ بھی پھر لاہور سے باہر دُور افتا دہ، پسماندہ،غیر ترقیاتی جگہوں پر پلاٹ دینے کا کہا گیا ہے مگر سات سے آٹھ سالوں سے زاید ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین کو پھوٹی کوڑی بھی نہیں دی گئی جبکہ ان ملازمین کی عمریں اب 65سے 80 برس ہو گئی ہیںاور کافی اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ ان غریبوں کا کیا قصور ہے کیاحکومت ان زندہ لوگوں کے مرنے کا انتظا ر کررہی ہے کہ انکے مرنے کے بعد انھیں گروپ انشورنس کی رقم اور پلاٹ دئیے جا ئیں گے تو کیا وہ ان پلاٹوں پر گروپ انشورنس کی رقم سے اپنے مقبرے بنوا ئیں گے۔ محسن نقوی صا حب!!! آپ ایک آئیڈیل وزیر اعلیٰ ثابت ہو رہے ہیں۔لگے ہاتھوں ریٹا ئر ڈ ملازمین کو اُنکا حقوق دیکر دعا ئیں لیں۔ ممکن ہے آپ مستقل وزیر اعلیٰ بن جائیں۔ اس لیے اس موقع سے فا ئدہ اٹھائیں اور حق داروں کو اُنکا حق دیدیں۔ ریٹا ئرڈملازمین آپکی محبت توجہ اور سخا وت کے منتظر ہیں۔  

ای پیپر دی نیشن