پاکستان کی سرحد کیساتھ ساتھ پختون قوم رہتی ہے جو صدیوں سے پاکستانی پختونوں کے بہت قریب ہے۔ انگریزوں نے انیسویں صدی میں جب ہندوستان پر مکمل قبضہ کر لیا تھا اس وقت بھی انکی شمال مغربی سرحدوں کے باشندے جنگجو، خوددار اور آزادی کے ناطے لڑائی کرتے رہتے تھے‘ اسی لئے ان علاقوں پر حکومت کرنے کیلئے خصوصی انتظامات کر رکھے تھے جنہیں یاغستان یا آزاد قبائل یا فاٹا کہلایا جاتا تھا۔ ان علاقوں کے باشندوں کے پڑوسی افغانستان میں رہنے والے باشندوں کیساتھ روابط اتنے زیادہ تھے کہ انکے درمیان کسی ملک کی سرحد کا کوئی امتیاز نہ تھا البتہ انگریز قابضوں اور افغانستان کے بادشاہ کے درمیان سرحد کے بارے میں باقاعدہ معاہدہ ہوا تھا جس کو ڈیورنڈ لائن کا نام دیا گیا تھا۔ اس لائن کے مشرق کی طرف فاٹا کا علاقہ کہلایا جہاں مخصوص انتظامیہ کے متعدد افسر گورنر کے تحت پولیٹیکل ایجنٹ کے نام پر متعین تھے اور بلا واسطہ ان علاقوں پر کنٹرول کیا کرتے تھے۔ یہی طریقہ کار پاکستان نے بھی آزادی کے بعد جاری رکھا تھا جو ابھی تک قائم و دائم ہے۔ بین الاقوامی سرحد کے دونوں طرف ابھی بھی ہم آہنگی، آمدورفت، بھائی چارہ، ایک زبان اسی طرح ہے جس طرح کہ صدیوں سے چلی آ رہی تھی۔ آزاد قبائل کے علاوہ پاکستان کے صوبہ سرحد کی ساری آبادی جو پشتو بولتے ہیں انکے افغانستان کے پشتونوں کیساتھ گہری ثقافتی قربت رہی ہے اور تاقیامت رہے گی اس کیفیت کا اندازہ آپ دنیا میں کسی کونے میں دو پٹھانوں کے درمیان بات چیت سے لگا سکتے ہیں جب وہ آپس میں پشتو بولنے میں فخر محسوس کرینگے اور بھائی چارہ کا گہرے طریقوں سے اظہار کرینگے۔
دینی رشتہ:افغانستان کی 95فیصد آبادی مسلمان ہے وہاں پشتو بولنے والوں کی نسبت فارسی زبان بولنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن دین اسلام کے شیدائی ہونے کے ناطے ان سب کا رشتہ آپس میں قریب تر ہے جو قرآن و سنت رسولﷺ پر مبنی ہے یہ رشتہ بہت مضبوط ہے اور ازل تک مضبوط ہی رہے گا۔ اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کی بے شمار ذاتی کمزوریوں کی وجہ سے ہمارے دشمنوں نے بے انتہا رخنے ڈال رکھے ہیں لیکن قربت کی بنیادیں ازحد گہری ہیں جو مٹائی نہیں جا سکتیں۔ پاکستان کے اور افغانستان کے مسلمان بہت اچھے مذہبی پیروکار گنے جاتے ہیں۔ چاہے بلوچی ہو یا پنجابی، سندھی ہو یا کشمیری، پٹھان ہو یا مہاجر سب کا دل افغانستان کے پختونوں ، فارسی دانوں، ازبکی، ترکمانوں یا کرغیزیوں کیلئے برابر دھڑکتا ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا تھا کہ 1980ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو وہاں کی بے شمار آبادی نے پاکستان ہجرت کی اور یہاں کے ہر شہر، گائوں، قوم یا خطے کے لوگوں نے انہیں خوش آمدید کہہ کر مدد مہیا کی۔ تیس سال گزرنے کے باوجود ابھی تک کثیر تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں اور خوش ہیں۔ اتنی تعداد کی ہجرت اور ان کیساتھ حسن سلوک کی وجہ نسل اور قومیت کے علاوہ دین اسلام کا زیادہ کمال ہے۔ بے شک قرآن کریم میں مسلمانوں کیلئے لکھا ہے کہ ’’واعتصمو بحبل للہ جمیعاً ولاتفرقو‘‘ اس آیت پر انفرادی لحاظ سے تو کافی حد تک عمل ہو رہا ہے لیکن اجتماعی لحاظ سے بہت مایوسی کا عالم ہے کاش کہ مسلمان جاگ جائیں۔
جغرافیائی لحاظ سے پاکستان اور افغانستان کئی اعتبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ دریائے سندھ کا بہت بڑا معاون دریا دریائے کابل افغانستان سے آتا ہے۔ افغانستان کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں قریب تر لگتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیائی مسلمان ریاستوں کا تسلسل افغانستان کو ملا کر پاکستان تک واقع ہے جو مواصلات اور قدرتی وسائل کے لحاظ سے دنیا کا اہم ترین خطہ ہے۔ پاکستان کیلئے مشرقی حملہ آور کیخلاف افغانستان سٹریٹجک ڈیپتھ کا کام دیتا ہے اور اسی طرح افغانستان کیلئے پاکستان یہی کام دیتا ہے۔ جسکو سوویت روس کے حملے کے وقت آزمایا جا چکا ہے۔ اب تو امریکہ اور نیٹو ممالک بھی اس بات کو کھلم کھلا تسلیم کرتے ہیں کہ مسئلہ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کیساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان کا ایک ساتھ حل ہونا چاہئے البتہ جو حل وہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ نفاق پیدا کرنے کا ہے اور اس نفاق کی وجہ سے وہ دونوں ملکوں کو کمزور اور ان پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ اب مختصر تجزیہ کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اور نیٹو فورسز کا افغانستان پر قبضہ مضبوط کرنے کیلئے پاکستان کو حملہ آوروں کا ساتھ دینا چاہئے تھا؟ یہ طے کرنا اس لئے آہم ہے کہ اس کا جواب ہمارے لئے موجودہ پالیسی بنانے کیلئے مدد گار ثابت ہو گا۔ اس سوال کے جواب کیلئے اولاً یہ دیکھنا ہو گا کہ سنہ 2001ء میں افغانستان نے کونسا قصور کیا تھا کہ امریکہ اس ملک پر قبضہ جمانا چاہتا تھا۔ یہ سوال ایک علیحدہ مضمون میں زیر بحث لایا جائیگا۔ ابھی ہم صرف اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو ممالک چاہے حق بجانب تھے یا نہیں، کیا پاکستان کو اس جنگ میں حصہ لینا چاہئے تھا؟ ہم نے یہ دیکھنا تھا کہ ہمارے ثقافتی، دینی، تاریخی و جغرافیائی عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اپنے مستقبل کا خیال رکھتے ہوئے کیا ہمیں اس پڑوسی ملک کیخلاف جنگ میں ملوث ہونا چاہئے تھا کیا ہمارا کسی بیرونی ملک خصوصاً امریکہ کیساتھ کوئی ایسی یاداشت یا معاہدہ تھا کہ ہم ان کی مدد کرنے کے پابند تھے؟
جواباً عرض ہے کہ مختلف لحاظ سے قربت کے علاوہ پاکستان کے اس وقت کی حکومت افغانستان کیساتھ بہت قریبی مراسم تھے۔ ہم صر ف دو ملک تھے جنہوں نے افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کیا ہوا تھا اور ہمیں اس نیک عمل پر فخر تھا کیونکہ طالبان حکومت افغانستان کی ایک ایماندار ، اصولی اور ہر دلعزیز حکومت تھی اور وہ ہمارے مشترکہ نظریہ حیات پر عمل پیرا تھے۔ ملا عمر کی ہر دلعزیزی کا اندازہ اب اہل مغرب کو بھی خوب ہو گیا ہے۔ انکے طرز حکومت پر پاکستانیوں کے کچھ اعتراضات ضرور تھے لیکن وہ معمولی نوعیت کے تھے جن کا وقت کیساتھ درست ہو جانا قدرتی عمل تھا۔ اہل مغرب کا اس حکومت کیخلاف پروپیگنڈہ مبالغہ آمیز اور حقیقت پر مبنی نہیں تھا اور دراصل وہ وہاں دین اسلام کے نفاذ کو ہدف اور نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔ انکے مقاصد جو بھی تھے اور وہ حق بجانب تھے یا نہیں۔ کم از کم پاکستانی قوم کو اس حکومت سے کوئی گلہ نہ تھا اور ان کیخلاف کسی قسم کی معاندانہ کارروائی کا کوئی مجاز نہ تھا۔
دراصل ملا عمر نے افغانستان کا اقتدار سنبھالا تو ہماری اس وقت کی دونوں سیاسی جماعتوں کے حکمرانوں نے (پی پی اور نواز لیگ) برد باری سے کام نہ لیا۔ اس وقت حالات ایسے موافق تھے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین کوئی مشترکہ لائحہ عمل مرتب کیا جا سکتا تھا بعد میں ہمارے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف ایک آزاد خیال پلے بوائے اور دنیاوی عیاشیوں کے مرتکب سربراہ سے ایسا نیک کام کرنا ناممکن تھا۔ پھر بھی صرف دنیاوی لحاظ سے افغانستان کیخلاف کوئی قدم اٹھانا ہمارے قیاس و گمان میں نہ تھا اور نہ ہی ہمارے مفاد میں تھا۔
امریکہ کیساتھ ہماری کوئی مفاہمت یا معاہدہ نہ تھا کہ ہم انکی مدد کیلئے ان کا افغانستان پر حملہ کرنے میں ساتھ دیتے۔ اسکے برعکس امریکہ کی ہمارے خلاف 1962، 1965، 1971، 1989،1998میں بار بار دھوکہ دہی، زیادتیاں، معاندانہ کارروائیاں، ہمارے مسائل کیلئے عدم دلچسپی وغیرہ اتنی طویل لسٹ تھی کہ انکی مدد کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہونا چاہئے تھا ۔ پس صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کیلئے کسی لحاظ سے بھی ایسا کوئی عنصر نہ تھا کہ افغانستان کیخلاف کسی بھی معاندانہ کارروائی میں ملوث ہوتا۔ ایسا کرنا ہماری سراسر غلطی تھی۔ امریکہ کا پاکستان کو دھمکی دینا اور مجبور کرنا سراسر دھونس اور زیادتی تھی۔ کیا امریکہ پاکستان کو کسی طرح سے مورد الزام ٹھہرا سکتا تھا؟ ہم نے طالبان حکومت سے اپنے تعلقات اچھے رکھے تو یہ ہمارے مفاد میں تھا اور کسی اور کیخلاف کسی قسم کی کارروائی نہ تھی۔ ہمارے ملک کے لوگ از خود طالبان کی ہردلعزیز حکومت کو مستحکم کرنے کیلئے گئے تو یہ غیر فطری عمل نہ تھا غیر فطری تو یہ تھا کہ امریکہ نے دو براعظم عبور کر کے اور ہندوستان نے شمالی اتحاد کی امداد کی تھی۔ مزید یہ کہ اگر امریکہ اور یورپ سے یہودی باشندے اسرائیل میں عربوں کیخلاف منصوبہ بندی مشاورت حتیٰ کہ جنگ کیلئے آ جا سکتے ہیں تو مسلمان ممالک کے لوگ از خود دوسرے مسلمان ملکوں خصوصاً ایک پڑوسی ملک میں کیوں نہیں جا سکتے؟ یہ سلسلہ جس طرح یہودیوں کیلئے جائز ہے اسی طرح مسلمانوں کیلئے بھی صرف جائز نہیں بلکہ فرض ہے پھر بھی اگر امریکہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنے باشندے افغانستان سے واپس بلا لیں تو یہ مطالبہ کسی حد تک معقول کہا جا سکتا تھا لیکن انکے حملے اور قبضہ کیلئے دھمکی پر سرتسلیم خم کرنا انتہائی بزدلی کا مظاہرہ تھا اگر ہمارا دلیر (اپنی زبانی نہ کہ کسی عمل کے ناطے) جنرل انکی دھمکی کو سفارتی یا مشاورتی عمل کے بعد رد کرتا اور امریکہ ہمارے خلاف کوئی کارروائی کرتا تو یہ ایک سراسر زیادتی اور ننگی جارحیت ہوتی جو اس وقت کے لحاظ سے دنیا کبھی قبول نہ کرتی ہمارے مسلمان ممالک کے عوام تو یقیناً ہمارا ساتھ دیتے اور سراپا احتجاج بنتے جس کا مثبت ردعمل بھی ہوتا۔ کاش کہ ہم اس وقت بزدلی کے مرتکب نہ ہوتے اور اپنے پڑوسی ملک کی تباہی کیلئے حصہ دار نہ بنتے۔ یہ کلنک ہمارے منہ پر صدیوں تک رہے گا کہ ہم نے کفار اور غیر کا اپنے بھائی کیخلاف ساتھ کیوں دیا؟ ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم افغانستان کی تباہی کے گناہ میں حصہ دار بنے اور اس عظیم غلطی کے مرتکب ہوئے۔ کچھ لوگ پاکستان کی مجبوری پر بہت زور دیتے ہیں۔ یہ منطق بہت نقصان دہ ہے کیونکہ اس کا تعلق قوم کی نفسیات پر پڑا ہے اور بہتوں کے اعصاب جواب دے گئے ہیں۔ نہ صرف ہی بلکہ ایسے تخریب کار حقیقت پسندوں اور دور اندیشوں کو شدت پسند یا جذباتی یا شاہینوں جیسے القاب دیکر ان کو چپ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ مزید ایک اور دلیل دی جاتی ہے کہ ہماری معیشت تباہ ہو جاتی اور ہم صدیوں پیچھے چلے جاتے۔ یہ سب دلیلیں منفی سوچ رکھنے والوں کی ہیں جو قومی سوچ، قومی عزت، قومی خود مختاری اور قومی ترقی کیلئے از حد نقصان دہ ثابت ہونگی اور ان کا جتنا جلد تدارک کیا جائے اتنا ہی اچھا ہو گا۔
پاکستان کے اکثر دانشمند اس وقت احساس کمتری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ امریکہ یا یورپین یونین کے نمائندوں کو اف تک کہنے کو تیار نہیں ہوتے اور حکومت تو ویسے ہی انکے دبائو میں بے حال ہو چکی ہے کیونکہ ان میں سکت نہیں ہے کہ ڈالروں کی چمک کے سامنے آنکھیں کھول سکیں۔ افغانستان پر قبضہ مضبوط کرنیوالی امریکہ/ نیٹو کی پالیسی سراسر غلط ہی نہیں بلکہ ظلم اور بربریت کی انتہا ہے۔ اس بیچاری قوم کو اس حالت زار سے بچانے کیلئے دنیا میں کوئی بھی انکی وکالت نہیں کر رہا۔ اس وقت صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جسکے پاس افغانستان کو بچانے کیلئے (Lever)موجود ہے۔ ہمیں سیاسی، مذہبی، پڑوسی اور انسانی بنیادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ لیور استعمال کرنا چاہئے۔ اس کیلئے ہمیں اپنی مکمل صلاحیتیں یعنی ڈپلومیسی، او آئی سی، ہیومن رائٹس، یو این او، میڈیا اور امریکہ/ یور پین یونین سے تعلقات کی بنا پر زور دینا چاہئے کہ افغانستان سے حملہ آور فوجیں واپس چلی جائیں اور اس بیچارے ملک کو اپنے حال پر چھوڑ دیں‘‘ ساتھ ہی دنیا کو باور کرائیں کہ چالیس سال سے دربدر تباہی و بربادی جھیلنے والے اس بدقسمت ملک کی بھرپور مدد کر کے وہاں دل کھول کر امداد دیں اور وہاں کے باشندوں کو جینے کا حق ادا کریں اگر پاکستان یہ سٹینڈ لیکر کھڑا ہو جائے تو میری ناقص رائے میں دنیا کے کثیر تعداد ملک ہماری تائید کریں گے اور ہماری کامیابی کے امکانات روشن ہو جائینگے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنی مضبوط اور موزوں پوزیشن کو پہچانیں اور اس سے افغانستان کو فائدہ پہنچائیں۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ امریکہ اور Euکے لاتعداد لوگ بھی اس کارثواب میں شرکت کرینگے۔
اگر امریکہ اور مغربی دنیا اپنے سٹریٹجک مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے افغانستان پر قبضہ مضبوط کرنے کی پالیسی پر مصر رہتے ہیں تو پاکستان کو کم از کم یہ تو ضرور کرنا چاہئے کہ ہم اس گناہ عظیم میں شرکت سے معذرت کر دیں۔ امریکہ اسرائیل اور ہندوستان نے پہلے سے فلسطین پر، مشرق وسطیٰ پر اور کشمیر پر ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ ان زیادتیوں کیخلاف کم از کم احتجاج تو ضرور جاری رہنا چاہئے اور انکی کسی قسم کی مدد نہیں کرنی چاہئے۔
دینی رشتہ:افغانستان کی 95فیصد آبادی مسلمان ہے وہاں پشتو بولنے والوں کی نسبت فارسی زبان بولنے والے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے لیکن دین اسلام کے شیدائی ہونے کے ناطے ان سب کا رشتہ آپس میں قریب تر ہے جو قرآن و سنت رسولﷺ پر مبنی ہے یہ رشتہ بہت مضبوط ہے اور ازل تک مضبوط ہی رہے گا۔ اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کی بے شمار ذاتی کمزوریوں کی وجہ سے ہمارے دشمنوں نے بے انتہا رخنے ڈال رکھے ہیں لیکن قربت کی بنیادیں ازحد گہری ہیں جو مٹائی نہیں جا سکتیں۔ پاکستان کے اور افغانستان کے مسلمان بہت اچھے مذہبی پیروکار گنے جاتے ہیں۔ چاہے بلوچی ہو یا پنجابی، سندھی ہو یا کشمیری، پٹھان ہو یا مہاجر سب کا دل افغانستان کے پختونوں ، فارسی دانوں، ازبکی، ترکمانوں یا کرغیزیوں کیلئے برابر دھڑکتا ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا تھا کہ 1980ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو وہاں کی بے شمار آبادی نے پاکستان ہجرت کی اور یہاں کے ہر شہر، گائوں، قوم یا خطے کے لوگوں نے انہیں خوش آمدید کہہ کر مدد مہیا کی۔ تیس سال گزرنے کے باوجود ابھی تک کثیر تعداد میں افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں اور خوش ہیں۔ اتنی تعداد کی ہجرت اور ان کیساتھ حسن سلوک کی وجہ نسل اور قومیت کے علاوہ دین اسلام کا زیادہ کمال ہے۔ بے شک قرآن کریم میں مسلمانوں کیلئے لکھا ہے کہ ’’واعتصمو بحبل للہ جمیعاً ولاتفرقو‘‘ اس آیت پر انفرادی لحاظ سے تو کافی حد تک عمل ہو رہا ہے لیکن اجتماعی لحاظ سے بہت مایوسی کا عالم ہے کاش کہ مسلمان جاگ جائیں۔
جغرافیائی لحاظ سے پاکستان اور افغانستان کئی اعتبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ دریائے سندھ کا بہت بڑا معاون دریا دریائے کابل افغانستان سے آتا ہے۔ افغانستان کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہیں قریب تر لگتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیائی مسلمان ریاستوں کا تسلسل افغانستان کو ملا کر پاکستان تک واقع ہے جو مواصلات اور قدرتی وسائل کے لحاظ سے دنیا کا اہم ترین خطہ ہے۔ پاکستان کیلئے مشرقی حملہ آور کیخلاف افغانستان سٹریٹجک ڈیپتھ کا کام دیتا ہے اور اسی طرح افغانستان کیلئے پاکستان یہی کام دیتا ہے۔ جسکو سوویت روس کے حملے کے وقت آزمایا جا چکا ہے۔ اب تو امریکہ اور نیٹو ممالک بھی اس بات کو کھلم کھلا تسلیم کرتے ہیں کہ مسئلہ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کیساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان کا ایک ساتھ حل ہونا چاہئے البتہ جو حل وہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ نفاق پیدا کرنے کا ہے اور اس نفاق کی وجہ سے وہ دونوں ملکوں کو کمزور اور ان پر قبضہ کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ اب مختصر تجزیہ کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اور نیٹو فورسز کا افغانستان پر قبضہ مضبوط کرنے کیلئے پاکستان کو حملہ آوروں کا ساتھ دینا چاہئے تھا؟ یہ طے کرنا اس لئے آہم ہے کہ اس کا جواب ہمارے لئے موجودہ پالیسی بنانے کیلئے مدد گار ثابت ہو گا۔ اس سوال کے جواب کیلئے اولاً یہ دیکھنا ہو گا کہ سنہ 2001ء میں افغانستان نے کونسا قصور کیا تھا کہ امریکہ اس ملک پر قبضہ جمانا چاہتا تھا۔ یہ سوال ایک علیحدہ مضمون میں زیر بحث لایا جائیگا۔ ابھی ہم صرف اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو ممالک چاہے حق بجانب تھے یا نہیں، کیا پاکستان کو اس جنگ میں حصہ لینا چاہئے تھا؟ ہم نے یہ دیکھنا تھا کہ ہمارے ثقافتی، دینی، تاریخی و جغرافیائی عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اپنے مستقبل کا خیال رکھتے ہوئے کیا ہمیں اس پڑوسی ملک کیخلاف جنگ میں ملوث ہونا چاہئے تھا کیا ہمارا کسی بیرونی ملک خصوصاً امریکہ کیساتھ کوئی ایسی یاداشت یا معاہدہ تھا کہ ہم ان کی مدد کرنے کے پابند تھے؟
جواباً عرض ہے کہ مختلف لحاظ سے قربت کے علاوہ پاکستان کے اس وقت کی حکومت افغانستان کیساتھ بہت قریبی مراسم تھے۔ ہم صر ف دو ملک تھے جنہوں نے افغانستان کی طالبان حکومت کو تسلیم کیا ہوا تھا اور ہمیں اس نیک عمل پر فخر تھا کیونکہ طالبان حکومت افغانستان کی ایک ایماندار ، اصولی اور ہر دلعزیز حکومت تھی اور وہ ہمارے مشترکہ نظریہ حیات پر عمل پیرا تھے۔ ملا عمر کی ہر دلعزیزی کا اندازہ اب اہل مغرب کو بھی خوب ہو گیا ہے۔ انکے طرز حکومت پر پاکستانیوں کے کچھ اعتراضات ضرور تھے لیکن وہ معمولی نوعیت کے تھے جن کا وقت کیساتھ درست ہو جانا قدرتی عمل تھا۔ اہل مغرب کا اس حکومت کیخلاف پروپیگنڈہ مبالغہ آمیز اور حقیقت پر مبنی نہیں تھا اور دراصل وہ وہاں دین اسلام کے نفاذ کو ہدف اور نقصان پہنچانے کے درپے تھے۔ انکے مقاصد جو بھی تھے اور وہ حق بجانب تھے یا نہیں۔ کم از کم پاکستانی قوم کو اس حکومت سے کوئی گلہ نہ تھا اور ان کیخلاف کسی قسم کی معاندانہ کارروائی کا کوئی مجاز نہ تھا۔
دراصل ملا عمر نے افغانستان کا اقتدار سنبھالا تو ہماری اس وقت کی دونوں سیاسی جماعتوں کے حکمرانوں نے (پی پی اور نواز لیگ) برد باری سے کام نہ لیا۔ اس وقت حالات ایسے موافق تھے کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین کوئی مشترکہ لائحہ عمل مرتب کیا جا سکتا تھا بعد میں ہمارے ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف ایک آزاد خیال پلے بوائے اور دنیاوی عیاشیوں کے مرتکب سربراہ سے ایسا نیک کام کرنا ناممکن تھا۔ پھر بھی صرف دنیاوی لحاظ سے افغانستان کیخلاف کوئی قدم اٹھانا ہمارے قیاس و گمان میں نہ تھا اور نہ ہی ہمارے مفاد میں تھا۔
امریکہ کیساتھ ہماری کوئی مفاہمت یا معاہدہ نہ تھا کہ ہم انکی مدد کیلئے ان کا افغانستان پر حملہ کرنے میں ساتھ دیتے۔ اسکے برعکس امریکہ کی ہمارے خلاف 1962، 1965، 1971، 1989،1998میں بار بار دھوکہ دہی، زیادتیاں، معاندانہ کارروائیاں، ہمارے مسائل کیلئے عدم دلچسپی وغیرہ اتنی طویل لسٹ تھی کہ انکی مدد کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہونا چاہئے تھا ۔ پس صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کیلئے کسی لحاظ سے بھی ایسا کوئی عنصر نہ تھا کہ افغانستان کیخلاف کسی بھی معاندانہ کارروائی میں ملوث ہوتا۔ ایسا کرنا ہماری سراسر غلطی تھی۔ امریکہ کا پاکستان کو دھمکی دینا اور مجبور کرنا سراسر دھونس اور زیادتی تھی۔ کیا امریکہ پاکستان کو کسی طرح سے مورد الزام ٹھہرا سکتا تھا؟ ہم نے طالبان حکومت سے اپنے تعلقات اچھے رکھے تو یہ ہمارے مفاد میں تھا اور کسی اور کیخلاف کسی قسم کی کارروائی نہ تھی۔ ہمارے ملک کے لوگ از خود طالبان کی ہردلعزیز حکومت کو مستحکم کرنے کیلئے گئے تو یہ غیر فطری عمل نہ تھا غیر فطری تو یہ تھا کہ امریکہ نے دو براعظم عبور کر کے اور ہندوستان نے شمالی اتحاد کی امداد کی تھی۔ مزید یہ کہ اگر امریکہ اور یورپ سے یہودی باشندے اسرائیل میں عربوں کیخلاف منصوبہ بندی مشاورت حتیٰ کہ جنگ کیلئے آ جا سکتے ہیں تو مسلمان ممالک کے لوگ از خود دوسرے مسلمان ملکوں خصوصاً ایک پڑوسی ملک میں کیوں نہیں جا سکتے؟ یہ سلسلہ جس طرح یہودیوں کیلئے جائز ہے اسی طرح مسلمانوں کیلئے بھی صرف جائز نہیں بلکہ فرض ہے پھر بھی اگر امریکہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنے باشندے افغانستان سے واپس بلا لیں تو یہ مطالبہ کسی حد تک معقول کہا جا سکتا تھا لیکن انکے حملے اور قبضہ کیلئے دھمکی پر سرتسلیم خم کرنا انتہائی بزدلی کا مظاہرہ تھا اگر ہمارا دلیر (اپنی زبانی نہ کہ کسی عمل کے ناطے) جنرل انکی دھمکی کو سفارتی یا مشاورتی عمل کے بعد رد کرتا اور امریکہ ہمارے خلاف کوئی کارروائی کرتا تو یہ ایک سراسر زیادتی اور ننگی جارحیت ہوتی جو اس وقت کے لحاظ سے دنیا کبھی قبول نہ کرتی ہمارے مسلمان ممالک کے عوام تو یقیناً ہمارا ساتھ دیتے اور سراپا احتجاج بنتے جس کا مثبت ردعمل بھی ہوتا۔ کاش کہ ہم اس وقت بزدلی کے مرتکب نہ ہوتے اور اپنے پڑوسی ملک کی تباہی کیلئے حصہ دار نہ بنتے۔ یہ کلنک ہمارے منہ پر صدیوں تک رہے گا کہ ہم نے کفار اور غیر کا اپنے بھائی کیخلاف ساتھ کیوں دیا؟ ہمیں تسلیم کرنا چاہئے کہ ہم افغانستان کی تباہی کے گناہ میں حصہ دار بنے اور اس عظیم غلطی کے مرتکب ہوئے۔ کچھ لوگ پاکستان کی مجبوری پر بہت زور دیتے ہیں۔ یہ منطق بہت نقصان دہ ہے کیونکہ اس کا تعلق قوم کی نفسیات پر پڑا ہے اور بہتوں کے اعصاب جواب دے گئے ہیں۔ نہ صرف ہی بلکہ ایسے تخریب کار حقیقت پسندوں اور دور اندیشوں کو شدت پسند یا جذباتی یا شاہینوں جیسے القاب دیکر ان کو چپ کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ مزید ایک اور دلیل دی جاتی ہے کہ ہماری معیشت تباہ ہو جاتی اور ہم صدیوں پیچھے چلے جاتے۔ یہ سب دلیلیں منفی سوچ رکھنے والوں کی ہیں جو قومی سوچ، قومی عزت، قومی خود مختاری اور قومی ترقی کیلئے از حد نقصان دہ ثابت ہونگی اور ان کا جتنا جلد تدارک کیا جائے اتنا ہی اچھا ہو گا۔
پاکستان کے اکثر دانشمند اس وقت احساس کمتری میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ امریکہ یا یورپین یونین کے نمائندوں کو اف تک کہنے کو تیار نہیں ہوتے اور حکومت تو ویسے ہی انکے دبائو میں بے حال ہو چکی ہے کیونکہ ان میں سکت نہیں ہے کہ ڈالروں کی چمک کے سامنے آنکھیں کھول سکیں۔ افغانستان پر قبضہ مضبوط کرنیوالی امریکہ/ نیٹو کی پالیسی سراسر غلط ہی نہیں بلکہ ظلم اور بربریت کی انتہا ہے۔ اس بیچاری قوم کو اس حالت زار سے بچانے کیلئے دنیا میں کوئی بھی انکی وکالت نہیں کر رہا۔ اس وقت صرف پاکستان ہی ایسا ملک ہے جسکے پاس افغانستان کو بچانے کیلئے (Lever)موجود ہے۔ ہمیں سیاسی، مذہبی، پڑوسی اور انسانی بنیادوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ لیور استعمال کرنا چاہئے۔ اس کیلئے ہمیں اپنی مکمل صلاحیتیں یعنی ڈپلومیسی، او آئی سی، ہیومن رائٹس، یو این او، میڈیا اور امریکہ/ یور پین یونین سے تعلقات کی بنا پر زور دینا چاہئے کہ افغانستان سے حملہ آور فوجیں واپس چلی جائیں اور اس بیچارے ملک کو اپنے حال پر چھوڑ دیں‘‘ ساتھ ہی دنیا کو باور کرائیں کہ چالیس سال سے دربدر تباہی و بربادی جھیلنے والے اس بدقسمت ملک کی بھرپور مدد کر کے وہاں دل کھول کر امداد دیں اور وہاں کے باشندوں کو جینے کا حق ادا کریں اگر پاکستان یہ سٹینڈ لیکر کھڑا ہو جائے تو میری ناقص رائے میں دنیا کے کثیر تعداد ملک ہماری تائید کریں گے اور ہماری کامیابی کے امکانات روشن ہو جائینگے۔ ضروری ہے کہ ہم اپنی مضبوط اور موزوں پوزیشن کو پہچانیں اور اس سے افغانستان کو فائدہ پہنچائیں۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ امریکہ اور Euکے لاتعداد لوگ بھی اس کارثواب میں شرکت کرینگے۔
اگر امریکہ اور مغربی دنیا اپنے سٹریٹجک مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے افغانستان پر قبضہ مضبوط کرنے کی پالیسی پر مصر رہتے ہیں تو پاکستان کو کم از کم یہ تو ضرور کرنا چاہئے کہ ہم اس گناہ عظیم میں شرکت سے معذرت کر دیں۔ امریکہ اسرائیل اور ہندوستان نے پہلے سے فلسطین پر، مشرق وسطیٰ پر اور کشمیر پر ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ ان زیادتیوں کیخلاف کم از کم احتجاج تو ضرور جاری رہنا چاہئے اور انکی کسی قسم کی مدد نہیں کرنی چاہئے۔