ماں بولی کا دن اور ”پلاک ایوارڈ“

کچھ لوگ دنیا میں خاص صلاحیتوں کے امین بن کر آتے ہیں۔ وہ مختلف شعبہ ہائے حیات میں اپنی فکر، طرزِ زندگی اور عمل سے مثبت تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں۔ بڑے لوگ کسی بھی معاشرے میں ہوں، کسی بھی قوم کے نمائندے ہوں وہ انسانیت کی میراث ہوتے ہیں اس لئے کہ انکے دل میں تمام عالم کا درد پوشیدہ ہوتا ہے۔ شفقت تنویر مرزا ایک ایسے شخص کا نام ہے جو انسان دوست، علم دوست اور زمین سے گہری محبت رکھنے والا ہے۔ زمین سے جڑی تاریخ، روایات، آرٹ اور کلچر ان کے بنیادی عشق میں شامل ہے۔ وہ تمام عمر اس عشق کے گن گاتے رہے اور لوگوں کو اپنی تاریخ اور اصل سے آگاہ کرتے رہے۔ پنجابی زبان انکی پہلی محبت تھی لیکن اس محبت نے انہیں دیگر زبانوں سے نفرت کرنا نہیں سکھایا بلکہ وہ قومی اور عالمی زبان کی اہمیت سے بھی خوب واقف تھے۔ صرف یہ چاہتے تھے کہ مادری زبان کو بھی اسکا حق ملنا چاہئے۔ شفقت صاحب تمام عمر پوری لگن سے صحافت کی دنیا میں علم کے چراغ روشن کرتے رہے۔ انکی وفات سے ہم ایک ایسے انسان سے محروم ہو گئے جو ہمیشہ تمام صوبوں کو ایک رسی میں پرونے کی بات کرتا تھا۔ قومی ہم آہنگی جس کا منشور تھا اور اسی حوالے سے وہ تمام پاکستانی زبانوں کی ترقی اور ترویج کی بات کرتا تھا۔ شفقت تنویر مرزا کی وفات پر بے شمار تنظیموں اور اداروں نے ریفرنس منعقد کئے۔ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر نے شفقت تنویر مرزا کی خدمات کے صلے میں ان کے نام پر ایک ایوارڈ کا اجراءکیا ہے جو ہر سال 21 فروری یعنی مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر پنجابی زبان، آرٹ اور کلچر کے حوالے سے خدمات سرانجام دینے والی شخصیت کو دیا جائیگا۔ اس پہلے ایوارڈ کیلئے اس سال مادری زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر شاعر، ادیب، کالم نگار، محقق اور دانشور مشتاق صوفی کا انتخاب کیا گیا اور ایک پروقار تقریب پِلاک کے آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس میں انہیں یہ ایوارڈ پیش کیا گیا اور اسکے ساتھ ایوارڈ کی رقم ایک لاکھ روپے کا چیک بھی دیا گیا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اس تقریب کی صدارت شفقت تنویر مرزا کی صاحبزادی طبشرہ بانو نے کی اور انہوں نے ہی یہ ایوارڈ مشتاق صوفی کو پیش کیا۔ تقریب میں موجود دانشوروں، صحافیوں، شاعروں اور فنکاروں میں سے شوکت علی، پروین ملک، ڈاکٹر سعید خاور بھٹا، جمیل بھٹی، امجد سلیم، پروفیسر زبیر احمد، جاوید اقبال، بابا نجمی، حسین مجروح، راجا نیّر، مظہر ترمذی، عدیل برکی، اقبال قیصر، اورنگزیب، بیرا جی اور ممتاز شفیع نے اپنے خطاب میں شفقت تنویر مرزا ایوارڈ کے اجراءپر اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ پِلاک آئندہ بھی اس روایت کو زندہ برقرار رکھے گا اور میرٹ پر ایوارڈ دینے کو ہر سال یقینی بنایا جائے گا۔ مشتاق صوفی کے حوالے سے محفل میں موجود تمام لکھنے پڑھنے اور فن سے وابستہ لوگوں نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ مشتاق صوفی اس وقت نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان کا ایک روشن خیال اور صاحب فکر ادیب ہے جس کی سوچ ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہے اور وہ خالصتاً علمی اور منطقی بنیادوں پر اپنی فکر کو استوار کرتے ہیں۔
اس تقریب میں شرکت کر کے ایک بات واضح ہو گئی کہ کام اور مقصد سے لگن رکھنے والے لوگ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ مٹی ضرور مٹ جاتی ہے مگر فکر میں کھلے ہوئے پھول کبھی نہیں مرجھاتے۔ اس ایوارڈ پر میں بھی پِلاک کی انتظامیہ کو ڈھیروں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور یہ امید بھی رکھتا ہوں کہ وہ صحافیوں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے لئے بھی ایوارڈز کا اجراءکر کے انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جلد شروع کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...