”مرد وہ ہے جو اپنا وطن اور بیوی کبھی نہیں چھوڑتا“ بات سچل سرمست کی تھی اور بیان کر رہے تھے لاڑکانہ سے آئے ہوئے پروفیسر یوسف شیخ الحمرا ہالIII میں دیر تک تالیاں بجتی رہیں اور ایسے میں خواتین کی گرم جوشی کچھ زیادہ تھی۔ شعراءشعور کی باتیں کرتے ہیں اور صوفی شعراءتو اپنی دھرتی سے محبت، بھائی چارے اور امن کے سفیر قرار دیئے جاتے ہیں مگر ہمارے ہاں دانش کی یہ باتیں محض باتیں ہوا کرتی ہیں ان کی کوئی قدر نہیں وگرنہ ادب اور ادیبوں کےلئے قائم ادارے”اکادمی ادبیات پاکستان“ کے سیمینار میں وفاقی وزیر برائے قومی ورثہ کمیٹی محترمہ ثمینہ خالد گھرکی ضرور تشریف لاتیں مگر ہمیں تسلیم کرنا پڑا کہ ادب اور ادیب ہماری حکومتوں کےلئے کبھی اہم نہیں رہے۔
ثمینہ گھرکی شاید ”گھرکی“ گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہوں کہ ان دنوں پی پی کو الیکشن کے ”لالے“ پڑے ہوئے ہیں اور ثمینہ تو اپنے بیٹے کو بھی میدان سیاست میں اتارنے کا فیصلہ کر چکی ہیں کچھ قبل انہوں نے بیٹے کو آصف زرداری اور بلاول سے باقاعدہ ملوایا.... پیپلزپارٹی حکومت کے آخری ایام میں اور ان دنوں اس کے رہنماﺅں نے متصوفانہ بیانات دینے شروع کر دیئے ہیں اور قوم کو بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ پر صبر و شکر کرنے کا درس بھی دیا جاتا ہے۔ شاید یہ سیمینار بھی اس سلسلے کی کڑی تھی مگر اس کا موضوع بہت اہم تھا۔ پنجاب کے دل لاہور میں سندھی شاعر سچل سرمست یا خیبر کے خوشحال خاں خٹک کی فکر پر ایسے سیمینار ہر شہر میں منعقد ہونے چاہئیں بلکہ سیمینار کے مقررین کی تجاویز تھیں کہ امن اور محبت کے سفیروں کی فکر عام کرنے کےلئے صوفی شعراءبلھے شاہ، وارث شاہ، میاں محمد بخش، شاہ حسین کے حوالے سے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں تحقیق کا کام تراجم اور ایسی تقریبات ضروری ہیں جبکہ یہی سب کچھ یہاں پنجاب میں بھی ہونا چاہئے۔ لوگوں میں محبت اور یگانگت کےلئے ادب کے معماروں کی فکر کو فروغ ملنا چاہئے۔
سیمینار میں پشاور سے اویس قرنی، اسلام آباد سے واحد بزدار اور لاڑکانہ سے پرنسپل کیڈٹ کالج محمد یوسف شیخ کے علاوہ اکادمی کے چیئرمین عبدالحمید نے بھی خطاب کیا۔ شیخ یوسف نے بتایا کہ لاڑکانہ میں ان کے کالج میں اقبال کارنر قائم ہے اور ہر سال کلام اقبال کے حافظوں کے درمیان مقابلہ بھی کرایا جاتا ہے۔ ایسا پنجاب کے کسی کالج یا یونیورسٹی میں شاید ہی ہو حالانکہ شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست یا خوشحال خٹک پر پنجاب کے شہروں میں بھی تحقیقی کام تراجم اور ایسی تقریبات ہونی چاہئیں۔ اب یہی ایک طریقہ ہے قوم کو آپس میں جوڑنے کا کہ صوفیانہ فکر کو ملک بھر میں رائج کیا جائے۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں اور ہم پاکستانی قوم کے موجودہ حالات پر غور فکر کر رہے تھے۔ زرداری سندھ کا بیٹا ہے جناب مجید نظامی نے انہیں ”مرد حر“ کا خطاب بھی دیا تھا۔ آصف زرداری نے قوم کو قطاروں میں کھڑے ہونے اور برداشت کا سلیقہ عطا کر دیا ہے۔ سی این جی پٹرول اور شہر میں ٹریفک کی لمبی قطاروں سے پاکستانیوں میں ڈسپلن کا ”چلن“ عام ہو رہا ہے اور قوم خاموشی سے ہر معاملے پر ”صبر و شکر“ کی عادی ہو چکی ہے۔ کسی دھرنے پر سارا شہر جام کر دیا جائے تو بھی اپنی گاڑیوں کاروں بسوں میں سب لوگ رات رات بھر سڑکوں پر گزار لیں گے۔
اسلام سے زیادہ ”تسلیم و رضا“ اور کیا ہو سکتی ہے۔ سو لوگ اب روغنی نان کی بجائے روکھی سوکھی پر قناعت کیا چاہتے ہیں۔
دھیرے دھیرے سچل سرمست کی باتوں پر بھی عمل شروع ہو جائے گا اور لوگ دوہری شہریت ترک کر دیں گے اور وطن کو کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ سیمینار میں پیش کی جانے والی سندھی کہاوت ”کتا اور بچہ ہجرت میں خوش ہوتا ہے“۔ ہماری سمجھ میں نہیں آئی شیخ یوسف صاحب نے اس کی وضاحت بھی نہیں کی۔ ممکن ہے ہجرت سے مراد مسلسل سفر ہو.... واللہ اعلم بالصواب ویسے اگر کتے ہجرت سے خوش ہوتے تو کم از کم لاہور میں آوارہ کتوں کی تلفی کےلئے کارپوریشن 50 روپے فی کتا دم کا انعام کبھی نہ رکھتی۔ شہر میں کتوں کی بہتات پر ایسا ہوتا رہا ہے البتہ کتا مار مہم کی بجائے اب تو اپنی اپنی ”میں“ کو مارنے کی کوئی مہم چلائی جائے.... یعنی ”میں ناہیں سب نُوں“ کے فلسفے پر عمل شروع کیا جائے کہ یہی صوفیا کی فکر ہے........کیا خیال ہے آپ کا۔
اکادمی ادبیات کا سیمینار اور پاکستانی ”صوفی قوم“
Feb 26, 2013