ہم کب تک روتے رہیں گے؟


کوئی زمانہ تھا کہ وحشت و بربریت اور حیوانیت و شیطانیت میں روانڈا، یوگنڈا اور صومالیہ کی مثالیں دی جاتی تھیں مگر اب یہ ساری باتیں اور مثالیں قصہ ماضی بن چکی ہیں۔ اب ساری دنیا اس حوالے سے پاکستان کی مثال دیتی ہے۔ کسی نے انسانیت سوز اور وحشیانہ طرز عمل کی بات کرنا ہوتی ہے تو وہ بلا جھجھک پاکستان کی مثال دیتا ہے۔ ایسی بدامنی جیسی پاکستان میں ہے ایسی وحشت و بربریت جیسی پاکستان میں ہے، ایسی بدعنوانی جیسی پاکستان میں ہے، ایسی لاقانونیت جیسی پاکستان میں ہے اور اسلحے کی ایسی ارزانی جیسی پاکستان میں ہے ہم شاید اس بات پر خوش بیٹھے ہیں کہ کسی طرح بھی سہی دنیا میں ہمارا نام تو ہے۔ ....ع
بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا
جو کچھ ہر روز کوئٹہ، کراچی اور خیبر پی کے میں ہوتا ہے اس پر انسانی آنکھ ہی نہیں چشمِ سنگ بھی اشکبار ہے۔ ہمارا معاشرہ تین حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک انسانیت کی تذلیل کرنے والے، دوسرا بے قصور، بے گناہ اور معصوم انسانوں کو خاک و خوں میں تڑپانے والے اور ایک دیوار گریہ پر صبح و شام آنسو بہانے والے اور تیسرا گروہ وہ ہے جو محض روٹین کی مذمت کرتا ہے، اپنی شدت احساس کا تذکرہ کرتا ہے اور پھر اپنے روزمرہ کے کاموں میں مگن ہو جاتا ہے۔
ایک بات بڑی غور طلب ہے کوئٹہ کے ہر سانحے کے بعد یا کراچی کے ہر افسوسناک واقعے کے بعد ہم اس رقص ابلیس کے پیچھے کوئی غیر ملکی طاقت تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی الزام امریکہ کو دیتے ہیں کبھی دوش انڈیا کو دیتے ہیں۔ کبھی کسی اور غیر ملکی طاقت کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں مگر ہم ذرا کچھ دیر رک کر یہ نہیں سوچتے کہ دہشت گردی اور ظلم و بربریت کی جتنی بھی وارداتیں ہوتی ہیں انہیں انجام دینے والے کون ہیں۔ غیر ملکی ہاتھ ان کے پیچھے ہو گا مگر آلہ کار تو ہم خود بنتے ہیں۔ اب یہ دہشت گردی اپنے عروج پر ہے۔ طاقت کے استعمال سے اور اپنے رعب دبدبے کی بنا پر وقتی طور پر کچھ حالات بہتر ہو جاتے ہیں مگر حالات سدھرتے نہیں۔ اس لئے محض یہ کہہ دینا کہ فلاں شہر کا انتظام فوج کو حوالے کر دیا جائے تو حالات میں بڑی مثبت تبدیلی آئے گی۔ بدامنی امن میں بدل جائے گی اور دہشت و بربریت کی جگہ ہر طرف سکون اور سلامتی کا راج ہو گا درست نہیں۔ کوئٹہ میں فوج بلانے کے بعد بھی اگر حالات درست نہ ہوئے تو پھر ہم کیا کریں گے کسے بلائیں گے
اب تو گھبرا کے کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
ہر مقتل کا اپنا ایک الگ دُکھڑا ہے، وہاں بہنے والی جوئے خوں کا الگ مصدر ہے، الگ سبب ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے مثلاً کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے بے قصور انسانوں کے قتل کا سبب فرقہ واریت کو سمجھا جاتا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ایجنسیاں اس کے پیچھے ہیں۔
یہ یک پہلو نہیں ہمہ پہلو معاملہ ہے۔ معاملہ فہمی سے پہلے بلکہ سب سے پہلے حُسنِ نیت کی ضرورت ہے اگر ہم صدق دل سے چاہیں گے کہ حالات درست ہو جائیں، رقص ابلیس کا چلن بند ہو، ملک میں امن و سلامتی کا دور دورہ ہو تو پھر ہمیں ایک مختلف حکمت عملی اختیار کرنا ہو گی۔ یہ حکمت عملی ایک روٹین کی زبانی و کلامی مذمت سے کہیں ماورا ہے۔ اس حکمت عملی کے مطابق سیاستدانوں، دینی ہنماﺅں، فوج اور ایجنسیوں کو اور سویلین بیورو کریسی سب کو مل کر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ سیاستدانوں کا کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ روزمرہ کے انتخابی دوروں کو کچھ مدت کیلئے ترک کریں اور دہشت گردی و بدامنی کے خاتمے کو اپنی اولیں ترجیح قرار دیں۔ دہشت گردی اور بدامنی کی لہر سے متاثر ہونے والے خاندانوں کی دلجوئی کریں۔ ان کے زخموں پر جتنا زیادہ سے زیادہ مراہم رکھ سکیں وہ رکھیں، انہیں دلاسہ دیں اور یقین دہانی کرائیں کہ اب کبھی انہیں اس خوفناک صورتحال سے دوچار نہیں ہونا پڑے گا۔ جہاں تک فوج کا تعلق ہے وہ براہ راست نہ سہی مگر اس کا مشورہ اور مصنوبہ بندی ہر آپریشن کے پیچھے موجودہ ہونی چاہئے۔ فوج کی طرف سے اگر یہ پیغام تمام تر انتظامی شعبوں تک چلا گیا کہ۔ اب کسی کے ساتھ رو رعایت نہیں ہونی چاہئے تو بہت کچھ درست ہو جائے گا۔ ایجنسیوں کا کردار تو سب سے اہم ہے۔ بڑا کلیدی کردار ہے ان کا۔ ایک تو انہیں آئے روز فیشن کے طور پر یا معلومات کے لحاظ سے جن الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کی تردید ہونی چاہئے یا وضاحت ہونی چاہئے۔ ایجنسیوں کی طرف سے خفیہ معلومات قانون کا نفاذ کرنے والوں تک پہنچنی چاہئیں۔ ان کا بنیادی کام تو یہی ہے کہ جرم کے سرزد ہونے سے پہلے مجرموں کی گردنوں تک وہ قانون کے ہاتھ کو پہنچا دیں اور اس بات کا خاص خاصل رکھیں کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں۔
امن عامہ کا قیام اور بدامنی کا اختتام یہ بڑا ہمہ پہلو اور ہمہ جہت کام ہے اس میں ایک طرف تو قانون کے آہنی پنجے کو بڑے بھرپور انداز میں اپنا کام کرنا چاہئے دوسری طرف معاشرے کی ہر مو¿ثر قوت کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ مذہبی و دینی رہنما بڑا ہی جاندار رول ادا کر سکتے ہیں۔ اس معاشرے میں مفاد پرستی، مادہ پرستی، انا پرستی، فرقہ پرستی اور دھڑے بندی عروج پر ہے۔ دینی رہنما اگر شعلوں کو ہَوا دیں گے تو وہ اور بھڑکیں گے اور بہت کچھ جلا کر بھسم کر دیں گے ان کا کام تو یہ ہے کہ بھڑکتی ہوئی آگ کو گلزار میں بدل دیں وہ لوگوں کی ہر میدان میں رہنمائی کریں۔ حصول روزگار کیلئے رہنمائی، ایک خوبصورت اور خوشگوار زندگی کیلئے رہنمائی، ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے میں رہنمائی، آپس میں محبت و مو¿دت عام کرنے میں رہنمائی، تحمل و برداشت کا کلچر عام کرنے میں رہنمائی اور سب سے بڑھ کر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو و درگزر کے اسوہ¿ حسنہ کے ذکر جمیل میں رہنمائی۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ اور یقیناً ان میں سے ہر بات کی اپنے اپنے مقام پر بہت بڑی اہمیت ہے مگر جو چیز سب سے اہم اور سب سے ضروری ہے وہ سو باتوں کی ایک بات ہے اور وہ ہے کہ جب تک دوٹوک سیاسی فیصلہ نہ ہو گا تو پھر سب کہانیاں ہیں۔ جب کوئی حکومت طے کر لے گی کہ وہ کسی ایسے شخص یا جماعت کی حکومت سازی میں مدد نہ لے گی جس کے بارے میں شکوک و شبہات ہوں گے، خدشات ہوں گے اور معلومات ہوں گی کہ وہ خود جرائم میں ملوث ہے یہ جرائم پیشہ لوگوں کی معاونت کرتی ہے اس وقت تک باقی سارے اقدامات غیر مو¿ثر ہوں گے۔ جب وزیر بھتہ خوری اور ناجائز قبضوں اور ڈرا دھمکا کر لوگوں کی جائیدادیں ہتھیا لینے کے درپے ہوں گے اس وقت تک امن و امان کیسے قائم ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن