عمران خان انتخابات میں کامیابی کیلئے پرعزم


عمران خان نے آکسفورڈ یونیورسٹی پاکستان سوسائٹی (OUPS) کے فورم پر طلباء سے خطاب کرتے ہوئے نئے جمہوری پاکستان پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر عمران خان کی سابق بیوی جمائما اور ان کے دونوں بیٹے سلیمان اور قاسم بھی موجود تھے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بیشتر مسائل اخلاص اور باصلاحیت قیادت کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی پاکستان سوسائٹی نے سال 2013ءکے لئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو مہمان مقرر کے طور پر مدعو کیا ان کے خیالات سے مستفید ہوئے اور بعدازاں طلباءنے ان سے پاکستانی سیاست کے حوالے سے مختلف سوالات کئے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پاکستان سوسائٹی کی داغ بیل 1950ءمیں ڈالی تھی جو اس وقت وہاں پر موجود پاکستانی طلباءاور برطانیہ کے پروفیشنلز کے درمیان مقبول ترین فورم بن چکا ہے۔ یہ سوسائٹی غوروفکر، سوچ بچار اور عوامی شعور کو اجاگر کرنے کے لئے اکادمی، ثقافتی اور سیاسی موضوعات پر مختلف سیمینار اور کانفرسیں منعقد کرواتی رہتی ہے۔ یہ سوسائٹی ”پاکستان فیوچر لیڈر شب فورم“ کے نام سے گزشتہ تین برسوں سے کانفرنسیں منعقد کروا رہی ہے جس کی پذیرائی میں سال بہ سال اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ہر سال یہ سوسائٹی کسی میڈیا گروپ کو بطور پارٹنر مدعو کرتی ہے، امسال ”وقت نیوز“ کو اس فورم کی کوریج اور اس کے ایجنڈے اور مباحثوں کو آرگنائز کرنے کیلئے مدعو کیا گیا۔ 24 فروری کو ”آکسفورڈ ڈیبیٹنگ چیمبر“ میں منعقد کئے جانیوالے اس فورم میں پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر اور قانونی ماہر، اعتزاز احسن کو بھی مدعو کیا گیا۔
آکسفورڈ ڈیبیٹنگ چیمبر، آکسفورڈ یونین بلڈنگ میں 1910ءمیں کیا جانے والا ایک اضافہ تھا۔ اس کی اصل بلڈنگ کو 1879ءمیں الفریڈ واٹر ہاو¿س نے ڈیزائن کیا تھا جو وکٹورین تعمیراتی سٹائل کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں اور نیشنل ہسٹری میوزیم میں کیا جانے والا ان کا کام اپنی مثال آپ ہے۔ عمران خان کے خطاب سے قبل آکسفورڈ یونیورسٹی پاکستان سوسائٹی کے موجودہ صدر.... رنچن مرزا اور سابق صدر عدنان رفیق، ان کے ساتھ موجود تھے اور انہوں نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کیلئے پاکستانی طلبائ، پروفیشنلز اور کاروباری حضرات کی جانب سے شروع کی جانے والی مہم کا خیر مقدم اور اس کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ ان تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد پاکستان میں تعلیم اور تکنیکی مہارت کے فروغ کیلئے ”نمل“ کی طرز کا ادارہ بنانا چاہتے ہیں۔
23 فروری کو جب ہلکی پھلکی برفباری ہو رہی تھی اور درجہ حرارت نقطہ انجماد کے قریب تھا وہاں کے لوگوں نے انتہائی گرم ملبوسات اور جیکٹس پہنی ہوئی تھیں، وہاں کے لوگوں نے ساٹھ سالہ عمران خان کو شرٹ اورنیلے رنگ کے ہلکے پھلکے کوٹ میں دیکھ کر حیرت اور دلچسپی کا اظہار کیا۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ یہ عمران خان کی جرا¿ت اور اعتماد کا ایک نمونہ ہے۔ فورم والے دن آکسفورڈ یونین کی صدر ماریا ریومین نے عمران خان کے خطاب سے قبل ان کا لوگوں کو تعارف کروایا۔ اس موقع پر انہوں نے یادہانی کروائی کہ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو آکسفورڈ ڈیبیٹنگ سوسائٹی کی صدر رہ چکی ہیں۔ انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور عمران خان میں مماثلت کو بھی بیان کیا جیسے وہ دور پھر واپس آ گیا ہے۔ مغربی ذہنوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو ایک بہت بڑی لیڈر اور مشرق کی نمائندہ شخصیت گردانی جاتی تھیں، اب اسکے بعد کوئی شخصیت ہے تو وہ عمران خان ہیں۔
عمران خان نے فورم میں خطاب کرتے ہوئے انہی باتوں اور سونامی کا ذکر کیا جسے وہ یہاں اکثر کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے انتہائی پر اُمید اور اعتماد سے کہا کہ آنے والے انتخابات میں ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نمایاں کامیابی حاصل کرے گی۔ ان کے ان بلند بانگ دعوو¿ں کو دیکھتے ہوئے ایک طالب علم نے سوال کیا کہ کیا انہوں نے بطور وزیراعظم پاکستان حلف برداری کی تقریب کیلئے شیروانی کا انتخاب کر لیا ہے۔ یہ وہ نازک اور نفسیاتی سوال ہے جس پر ایک مرتبہ سہیل وڑائچ نے 2008ءکے انتخابات کے بعد احمد مختار کو زچ کر دیا تھا۔ عمران خان نے دانش مندی کا ثبوت دیتے ہوئے مسکرا کر کہا .... ”اگلا سوال“ عمران خان سے ایک کے بعد ایک سوال کیا گیا، کئی تندوتیز اور چھبتے ہوئے سوالات کئے گئے، مثلاً یہ کہ انہوں نے ایم کیو ایم کے الطاف حسین کے خلاف چپ کیوں سادھ لی ہے؟ خورشید محمود قصوری جیسے لوگ جنہیں لوگ پچھلے ادوار میں آزما چکے ہیں، کیسے تبدیلی کی ضمانت دے سکتے ہیں؟ کیا طلباءکو پاکستان واپس آ کر ملک کی خدمت کرنی چاہیے یا پھر گلوبل معیشت کا حصہ بننا چاہیے؟ پارٹی کے اندر جنرل انتخابات سے قبل انتخابات کیوں ناگزیر تھے، وغیرہ وغیرہ۔
الطاف حسین کے حوالے سے کئے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الطاف حسین کے خلاف انہوں نے معاملہ 2007ءمیں کچھ پی ٹی آئی کے ورکرز کی ہلاکت کے بعد اٹھایا تھا کیونکہ کراچی میں رونما ہونے والے اس سانحے کی ذمہ دار ایم کیو ایم تھی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک وقت میں بہت زیادہ محاذوں پر لڑنے کے قائل نہیں، اس وقت انکے سامنے دو اہم محاذ ہیں، ایک نوازشریف اور دوسرے آصف علی زرداری جو کہ ملک میں تبدیلی اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ توہین مذہبی شخصیات کے قانون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ انگریز دور میں بنایا گیا تھا تاکہ مختلف مذہبی گروپس کے درمیان اختلافات کو ہم آہنگی میں تبدیل کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ صرف توہین رسالت کا قانون ہی نہیں بلکہ تمام قوانین کو غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے آکسفورڈ کے طلباءکی ذہانت اور صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ ملک واپس آ کر اسکی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ملک کو اس وقت انکی اشد ضرورت ہے۔ پارٹی میں انتخابات کے حوالے سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہی بات تو ہماری پارٹی کی دیگر پارٹیوں سے ممتاز کرتی ہے، اور ملک میں ترقی اور تبدیلی لانے کیلئے اس قسم کے اقدامات انتہائی ضروری ہیں جس کا انہوں نے 23 مارچ کو لاکھوں کے مجمع میں وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی انتخابات کے ذریعے سامنے آنیوالے لیڈر ہی وہ لیڈرز ہونگے جو نئی روح، نئی امنگ کے ترجمان ہوں گے اور روائتی لیڈروں اور اپنے درمیان حد فاصل قائم کریں گے۔ جو روایات نوازشریف اور آصف زرداری نے قائم کی ہیں۔ ہمارے لیڈر ان کا قلع قمع کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی پارٹی کی سیاست، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی مانند، ”فیملی پرائیویٹ لمیٹڈ“ نہیں ہوگی، جنہوں نے اپنے بعد اپنی اولاد بلاول اور مریم نواز کو سامنے لا کر کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انکے بعد ان کے بیٹے، سلیمان اور قاسم کسی طور بھی انکے جانشین نہیں ہوں گے اور یہی سب سے بڑا فرق ہے۔
عمران خان کے فورم میں خطاب اور سوال و جواب کی نشست کے بعد شرکاءمیں ملا جلا رجحان پایا گیا۔ زیادہ تر لوگ عمران خان کے دلکش بیان اور سحر انگیز خطاب سے تو بہت متاثر ہوئے مگر ان باتوں کو عملی صورت میں دیکھنے کے حوالے سے ان میں شکوک و شبہات پائے جاتے تھے۔ اب انہیں پیپلز پارٹی کے لیڈر اور مایہ ناز قانون دان اعتزاز احسن کے خطاب کا انتظار ہے کہ وہ کس طرح اپنی پارٹی اور اپنے لیڈر آصف زرداری کا دفاع کرتے ہیں وقت نیوز نے بیرسٹر اعتزاز احسن اور طلباءکے درمیان ہونے والے سوال و جواب اور مباحثے کو ریکارڈ کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ بیرسٹر اعتزار احسن کی طلباءسے نشست گزشتہ کی نسبت خاصی سخت اور تنقید سے بھر پور ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...