پاکستان، بھارت اور امریکہ ۔۔۔ تلخ حقائق

Feb 26, 2013

پروفیسر نعیم قاسم


جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب کی تقریب رونمائی میں کشمیری حریت پسند رہنما پروفیسر اشرف صراف نے بڑی جرا¿ت سے برملا کہا کہ کارگل کی جنگ کے وقت اسے دوسرے کشمیری لیڈران کے ہمراہ سکیورٹی اداروں نے سات جرنیلوں کی موجودگی میں مکمل بریفنگ دی اور ہمیں یہ کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد کو سڑکوں پر لائیں ہم فیصلہ کن معرکے کیلئے تیار ہیں مگر یکدم امریکہ کے دباﺅ پر پاکستان اعلان واشنگٹن کے تحت پسپائی اختیار کر گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے پسپا ہی ہونا تھا تو اس آپریشن کی کیا ضرورت تھی اور دوسرا اگر منصوبے میں تکینکی خامیاں تھیں یا بھارتی ردعمل کا اندازہ نہیں تھا تو پھر ہمیں کس لئے اعتماد میں لیا گیا تھا۔ انہوں نے بڑی حیران کن بات جنرل حمید گل اور جنرل اسد درانی کو مخاطب کر کے کہی کہ حقیقتاً مشرف کو بھی کارگل آپریشن کی تمام تر جزئیات کا علم نہیں تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم پر امریکہ نے اس لئے دباﺅ ڈالا تاکہ وہ ہندوستان کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنر شپ قائم کر سکے اور آج بھی جنوبی ایشیا میں امریکہ ہندوستان کو اپنے سٹرٹیجک پارٹنر کے طور پر افغانستان میں اہم کردار دے رہا ہے۔ چنانچہ مجھے پروفیسر اشرف صراف کی یہ بات سُن کر خیال آیا کہ کارگل آپریشن پر اعلان واشنگٹن تک جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا اسکے پیچھے امریکہ کی مکمل آشیرباد ہندوستان کو حاصل تھی۔
میں جو کچھ کہنے جا رہا تھا وہ یہ ہے کہ کارگل کے حادثے کے بعد پاک امریکہ اور بھارت امریکہ تعلقات میں جو غیر معمولی تبدیلی آئی اس کا ادراک اس وقت کی حکومت اور سکیورٹی اداروں کی پالیسی سازوں کو بھی نہ تھا ۔ کارگل کے آپریشن کے منظرعام پر آنے سے پہلے ہی انڈیا اور امریکہ کے درمیان بڑی گہری ہم آہنگی تمام بنیادی اور سکینڈری ایشوز پر قائم ہو چکی تھی اور کارگل کے حادثے کے وقت اور اس کے بعد دونوں کے تعلقات اور روابط میں گہری کیمسٹری دیکھنے کو ملی جیسے دونوں ایک دوسرے کے مفادات کے مکمل حمایتی ہیں۔ ہندوستان اور امریکہ کی قربت کے پیچھے صرف ایک ہی فیکٹر ہے کہ امریکہ چین کے اثر و رسوخ کو جنوبی ایشیا میں بڑھنے سے روکنے کی خاطر ہندوستان کی مدد کا طلبگار ہے کیونکہ اس کو پاکستان سے چین کے خلاف کسی قسم کی واضح حمایت ملنا ناممکن ہے۔ قومی معاملات میں زرداری حکومت کی کارکردگی لاکھ بُری سہی مگر حکومت نے آخری دنوں میں گوادر پورٹ کا کنٹرول چین کو دیکر اور ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ کرکے آزادانہ خارجہ پالیسی کی طرف اپنا پہلا قدم بڑھا دیا ہے جو بے حد قابل تحسین ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ جب ہندوستان نے 1998ءمیں ایٹمی دھماکے کئے تو اس پر بظاہر مغرب نے بڑا احتجاج کیا اور ہمیں جوابی دھماکے کرنے سے منع کیا لیکن ہم نے انکی مرضی کے خلاف دھماکے کر ڈالے لیکن امریکہ نے یہ محسوس کیا کہ ہندوستان اب ایک کھلم کھلا ایٹمی طاقت بن گیا ہے تو اسکے ساتھ تعلقات کی ایک نئی نہج قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ ان دھماکوں کے بعد انڈیا اور امریکہ کے درمیان بہت قریبی روابط قائم ہونا شروع ہو گئے۔ جب واجپائی کے دور حکومت میں جسونت سنگھ وزیر خارجہ تھے تو امریکی خارجہ پالیسی کے اس وقت حکومت کے اصل دماغ سٹروپ ٹالبوٹ جو بظاہر امریکی وزیر خارجہ میڈم میڈلین البرائیٹ کا نمبر 2 تھا اور اس وقت کے امریکی صدر اس پر بہت اعتماد کرتے تھے اُن دونوں کے درمیان گہرے مذاکرات ہوئے اور جسونت سنگھ نے بڑے تفاخر کے ساتھ کہا کہ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان جتنے گہرے، پیداواری اور ثمر آور تعلقات اب ہیں پہلے کبھی نہیں تھے اس کی تائید کرتے ہوئے اس وقت کے نائب امریکی وزیر خارجہ کارل انڈرفرتھ نے سینٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ ”امریکہ اور بھارت فطری حلیف ہیں، بھارت دنیا کی سب سے مضبوط جمہوریتوں میں سے ایک ہے، درج شدہ ووٹروں کی دو تہائی تعداد ووٹ ڈالتی ہے اور درجنوں سیاسی جماعتیں 60 کروڑ ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بھارت میں اگرچہ سیاسی قوتوں کے درمیان کشمکش رہتی ہے مگر بھارت کی مضبوط جمہوریت کی سطح کے نیچے اسکے جمہوری ادارے اور روایات بہت مضبوط ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ جوہری دھماکوں سے ایک دن پہلے کے تعلقات کی طرف واپس لوٹ جائیں اور اپنے دوطرفہ تعلقات کو ایک نئی وسعت، ایک نئی رفعت اور ایک نئی گہرائی عطا کریں۔“ چنانچہ کارگل کے بحران کے وقت امریکہ اور مغرب کا رویہ ہمارے ساتھ اس قدر معاندانہ کیوں ہو گیا اور ہندوستان کے حق میں کیسے ہو گیا؟ یہی سوال کا جواب دینے کی کوشش کر رہا ہوں کہ کارگل کے مسئلے پر امریکہ کا ہندوستان کی طرف جھکاﺅ اس سابقہ سوچ اور فکر کا نتیجہ ہے کہ امریکہ کے تھنک ٹینکس اور اسکے دفتر خارجہ کے جسونت سنگھ کے ساتھ ڈائیلاگ کے نتیجے میں اور اپنے تصورات کے مطابق انڈیا کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
1950ءکے عشرے کے زمانہ میں جب آئزن ہاور امریکہ کے صدر تھے اُن کے وزیر خارجہ فاسٹر ڈلس تھے، یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ ایک طرف سوویت یونین کے خلاف اور دوسری طرف چین کے خلاف دفاعی معاہدوں کا حصار کھینچ رہا تھا اس کام میں امریکہ کو جنوبی ایشیا کے علاقائی ممالک کی حمایت اور تعاون درکار تھا۔ اس ضمن میں انکی نظر پاکستان پر بھی تھی کیونکہ اس وقت بھی پاکستان کی سٹرٹیجک پوزیشن بے حد اہم تھی۔ پاکستان کے دونوں بازو قائم تھے۔ مشرقی پاکستان کی اہمیت چین کے گرد گھیرا ڈالنے کے حوالے سے بھی تھی اور مغربی پاکستان کی اہمیت مڈل ایسٹ اور گرم پانیوں کے سمندر کے لحاظ سے تھی۔ چنانچہ کمیونزم کے خلاف امریکہ نے پاکستان کو فوجی امداد دی اور پاکستان سیٹو اور سینٹو جیسے دفاعی معاہدہ کا ممبر بنا۔ اس وقت غیر وابستہ تحریک کے تمام ممالک کے نزدیک پاکستان امریکہ کا پٹھو ملک شمار ہونے گا۔ نہرو ہندوستان کو غیر وابستہ ممالک کی تحریک میں لے گیا اور خود کو دنیا میں امن کا علمبردار بنا کر پیش کرنے گا لہٰذا دنیا میں پاکستان اور ہندوستان کے متعلق الگ الگ Perceptions یعنی تخیلات تھے۔ امریکہ کی خواہش کے باوجود بھارت اعلانیہ اسکے قریب نہیں آیا لیکن امریکہ کی شروع سے یہ حسرت تھی کہ وہ بھارت کو چین کے مقابلے پر لائے۔ مغرب یہ بھی چاہتا تھا کہ وہ جمہوری طریقے اور مارکیٹ اکانومی کے ذریعے انڈیا کو اس قدر ترقی یافتہ بنا دے کہ وہ ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کیلئے رول ماڈل بن جائے اور وہ اپنی ترقی کیلئے کمیونسٹ ممالک کی طرف دیکھنا چھوڑ دیں، لہٰذا مغرب ہندوستان کو اپنے قریب لانے کی کوششوں میں مصروف رہا لیکن کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ مگر جب 1962ءمیں چین کے ساتھ سرحدی جھڑپوں میں ہندوستان کو منہ کی کھانی پڑی تو پنڈت نہرو نے گھبرا کر امریکہ کو خط لکھے کہ اسے فوجی امداد دی جائے۔ امریکہ کے صدر جان کینیڈی جو 1961ءمیں منتخب ہوئے وہ بھی نہرو کے مداح تھے اور انکی شخصیت سے متاثر تھے۔ انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ ہندوستان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعلقات قائم ہوں۔
قارئین : جب سوویت یونین ٹوٹ گیا تو ہندوستان کی سیاسی قیادت نے یا خارجہ پالیسی بنانے والوں نے عقلمندی کی کہ سوویت یونین کے انہدام کے فوراً بعد نئے آپشنز تلاش کرنے شروع کر دئیے، وہ چالیس سال تک روس کے بلاک میں رہے مگر جب روس کو زوال آیا تو ایک منٹ میں مغرب کے ساتھ پیار و محبت کی پینگیں بڑھانا شروع کر دیں، چونکہ مغرب کا لیڈر امریکہ تھا اور وہ تو پہلے دن ہی سے ہندوستان کی نگاہِ التفات کا منتظر تھا چنانچہ انڈیا اور امریکہ کے درمیان نئی نئی محبت، نئی نئی دوستی میں کیسے ممکن تھا کہ امریکہ کارگل کے آپریشن کے وقت ہمارے اصولی مو¿قف کو درست سمجھتا اور کشمیر کے مسئلے کا کوئی آبرومندانہ حل نکالتا۔ چنانچہ کارگل کے بحران کے وقت امریکہ کا ہندوستان کی طرف جھکاﺅ قائم ہوا۔ یہ تو صرف اس کا ایک اظہار تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنوبی ایشیا کے متعلق تمام امور پر گہری ہم آہنگی ہے۔ دنیا میں بھارت کی کامیاب خارجہ پالیسی کی بدولت کوئی بھی پاکستان کے اس تجزیے کی صداقت تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے کہ جب تک تنازع کشمیر حل نہیں ہوتا جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اپنا وزن ایک منصفانہ حل کے پلڑے میں ڈالیں اور امریکہ سے کبھی یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنا وزن تنازع کشمیر کے منصفانہ حل کے پلڑے میں ڈالے گا قطعاً عبث ہے اور ہندوستان میں کبھی بھی ڈیگال اور قائداعظم کی بصیرت کا حامل کوئی رہنما پیدا نہیں ہوا ہے جو کشمیر کے مسئلے کو حل کر کے جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کا کریڈٹ لینے کی کوئی کاوش کرے۔ آخرکار دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں کہیں جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ کا فلیش پوائنٹ نہ بن جائے لہٰذا ضروری ہے ہندوستان کشمیر کے مسئلے پر اپنی ہٹ دھرمی کو ختم کریں تاکہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن قائم ہو اور خطے کے تمام ممالک معاشی خوشحالی حاصل کر سکیں۔

مزیدخبریں