لاہور (رپورٹ: فرخ سعید خواجہ) پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا معاہدہ ہونے کے بعد گجرات کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 105 پر پیپلز پارٹی کے چودھری احمد مختار اور (ق) لیگ کے چودھری پرویز الٰہی دونوں کے الےکشن لڑنے کے اعلانات نے یہ سوال پیدا کردیا ہے کہ کیا دونوں جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ہے یا انہوں نے معاہدے کے فارمولے سے ہٹ کر اتفاق کرلیا ہے کہ این اے 105 گجرات سمیت کچھ حلقوں کو اوپن چھوڑ دیا جائے۔ گجرات کا حلقہ این اے 105 سن 2002 کے الےکشن میں وجود میں آیا تھا جبکہ 1988ءسے اسے این اے 81 سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اس حلقہ انتخاب کو چودھری ظہور الٰہی فیملی اپنا حلقہ انتخاب سمجھتی ہے کیونکہ اس حلقہ انتخاب سے چودھری شجاعت حسین 1985ئ، 1988ئ، 1990ئ، 1997ءاور 2002ءکے عام انتخابات میں منتخب ہوئے جبکہ 1993ءاور 2008ءمیں چودھری شجاعت حسین کو شکست ہوئی۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری احمد مختار میں پہلا انتخابی معرکہ 1990ءمیں ہوا جس میں چودھری شجاعت حسین نے 80861 ووٹ لئے اور وہ چودھری احمد مختار کے مقابلے میں جنہوں نے 74621 ووٹ لئے، جیت گئے۔ 1993ءکے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے چودھری احمد مختار نے میدان مار لیا۔ انہوں نے 80759 ووٹ حاصل کئے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے چودھری شجاعت حسین 77365 ووٹ لے سکے۔ 1997ءمیں ایک مرتبہ پھر چودھری شجاعت حسین نے 86903 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی۔ انکے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے حریف چودھری احمد مختار صرف 41126 ووٹ لے سکے۔ یہ عام انتخابات شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی 1993-96ءکی حکومت کے خاتمے کے بعد منعقد ہوئے تھے۔ اس حکومت کے دوران پیپلز پارٹی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی اور الیکشن 1997ءمیں انکے ووٹروں نے ووٹ ڈالنے کی بجائے گھروں میں بیٹھنے کو ترجیح دی تھی۔ اگلے عام انتخابات 2002ءمیں ہوئے جس میں ایک مرتبہ پھر چودھری شجاعت حسین نے 66809 ووٹ لیکر میدان مار لیا اور چودھری احمد مختار 52632 ووٹ لیکر رنر اپ رہے تاہم الیکشن 2008ءمیں چودھری احمد مختار 79735 ووٹ حاصل کرکے جیت گئے اور چودھری شجاعت حسین 65738 ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔ چودھری شجاعت حسین کو انکی جماعت نے 1993ءکی طرح ایک مرتبہ پھر سےنیٹر منتخب کرلیا ہے۔ 1993ءمیں سےنیٹر منتخب ہونے کے باوجود 1997ءکے عام الیکشن میں چودھری شجاعت حسنی نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا اور جیت لیا تھا مگر اب انہوں نے اپنی صحت کی حالت کو سامنے رکھتے ہوئے سینٹ ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے اور این اے 105 گجرات سے نائب وزیراعظم پاکستان اور (ق) لیگ کے مرکزی سینئر رہنماءچودھری پرویز الٰہی میدان میں اترے ہیں۔ انکا دعویٰ ہے کہ یہ انکی آبائی نشست ہے جس پر چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت حسین بار بار منتخب ہوئے جبکہ چودھری احمد مختار کا کہنا ہے کہ آبائی نشست اسکو کہا جاسکتا ہے جس پر کوئی کبھی شکست نہ کھائے مگر چودھری شجاعت حسین دو مرتبہ الیکشن ہار چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر منظور وٹو کا اصرار ہے کہ پیپلز پارٹی، (ق) لیگ معاہدے کے مطابق جس پارٹی کا رکن قومی اسمبلی جیتا ہوگا آنیوالے الیکشن میں بھی اسکا امیدوار ہی مشترکہ امیدوار ہوگا۔ اس فارمولے کے تحت الیکشن 2008ءمیں یہاں سے جیتنے والے چودھری احمد مختار کا یہاں سے الیکشن لڑنے کا حق ہے اور وہ ضرور الیکشن لڑیں گے۔ چودھریوں کو اعتراض ہے تو زرداری صاحب سے بات کریں جبکہ چودھری پرویز الٰہی خود بھی ان اے 105 گجرات سے الیکشن لڑنے کا اعلان کرچکے ہیں اور چودھری شجاعت حسین نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی ہر قیمت پر اس حلقے سے الیکشن لڑیں گے۔ چودھری احمد مختار مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کریں۔ اس صورتحال میں لفظ ”ہر قیمت“ بہت اہمیت کا حامل ہے جس کے باعث پیپلز پارٹی اور (ق) لیگ میں اختلافات کی باتیں گردش کررہی ہیں۔