جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست۔ قومی ٹیم کا غیر ذمہ دارانہ رویہ


تیسرے دن تیسرا ٹیسٹ اور مسلسل تیسری ناکامی کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ تین میچوں کی سیریز کا اختتام جنوبی افریقہ نے کلین سویپ کرکے کیا ہے۔ تین ٹیسٹ میچوں میں سے کوئی ایک بھی پانچویں دن تک نہ جا سکا۔ میزبان ٹیم نے کھیل کے ہر شعبے میں اپنی برتری ثابت کی اور پاکستانی کھلاڑیوں کو بے بس کئے رکھا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی ٹیم اب ٹی ٹونٹی اور ون ڈے میچوں کی صلاحیت کی حامل ہے۔ ٹیسٹ میچ کھیلنا اس کے مزاج کے خلاف ہے تاہم جنوبی افریقہ کے خلاف ٹونٹی ٹونٹی اور ون ڈے میچ بھی آسان نہیں ہوں گے۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ہم ٹیسٹ میچ کم کھیلتے ہیں گذشتہ تین برس سے مسلسل پانچ روزہ میچوں میں نمائندگی کرنے والے کھلاڑیوں کے ٹیسٹ میچز کی تعداد دیکھیں تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اس معاملے میں بھی غلط بیانی کا سہارا لیا جاتا ہے۔ جولائی 2010ءسے ابتک اظہر علی نے 27 ٹیسٹ میچوں میں قومی ٹیم کی نمائندگی کی ہے۔ ایک ایسا ملک جو بین الاقوامی کرکٹ سے محروم ہو اسکا ایک کھلاڑی اس عرصے میں 27 ٹیسٹ میچ کھیل لے تو یہ ہر لحاظ سے مناسب تعداد معلوم ہوتی ہے۔ درست ہے کہ ہمارے ملک میں کرکٹ نہیں ہو رہی لیکن بیرون ملک ہم مسلسل کھیل رہے ہیں۔
ان تین ٹیسٹ میحوں میں ہماری طرف سے تھوڑے وقت کے لئے ہلکی پھلکی مزاحمت ضرور رہی لیکن مجموعی طور پر جنوبی افریقہ کا پلڑا بھاری رہا۔ دوسرے ٹیسٹ میں سعید اجمل کی باﺅلنگ اور یونس خان، اسد شفیق کی سنچریوں کے علاوہ کوئی ایسا موقع نظر نہیں آتا جہاں ہمارے کھلاڑی حقیقی ٹیسٹ پلیئرز کے روپ میں دکھائی دئیے ہوں جس طرح بیٹسمین آﺅٹ ہوتے رہے اس سے ہوم ورک، مناسب تیاری اور منصوبہ بندی کا فقدان نظر آتا ہے۔ اس میں صرف کھلاڑی ہی نہیں، کوچنگ سٹاف اور کرکٹ بورڈ انتظامیہ بھی قصوروار ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری بیٹنگ ناتجربہ کار ہے تو ناکامی کے بعد یہ دلیل ناقابل فہم ہے۔ کیا یونس خان، مصباح الحق، حفیظ اور اظہر علی ناتجربہ کار ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹاپ آرڈر میں ہمارے زیادہ تر بلے باز محدود وسائل کے حامل ہیں۔ ان کے پاس شاٹس ورائٹی نہیں ہے اور ٹاپ کلاس باﺅلنگ کا سحر توڑنے اور ان کا دباﺅ کم کرنے کے لئے اچھی گیندوں پر بھی رنز بنانا پڑتے ہیں۔ ہمارے بلے بازوں کی اکثریت اس صلاحیت سے محروم ہے۔ ہماری بیٹنگ تو ناکام رہی ہے۔ باﺅلنگ نے بھی مایوس ہی کیا ہے۔ کپتانی بھی انتہائی ناقص رہی۔ مصباح الحق ٹیسٹ سیریز میں بحیثیت کپتان بھی ناکام رہے۔ غیر ملکی کوچ بھی کہیں نظر نہیں آیا۔ مناسب منصوبہ بندی کا نہ ہونا کوچنگ سٹاف کی ناکامی ظاہر کرتا ہے۔ محسن خان کی کوچنگ میں پاکستان نے دنیا کی بہترین اور اس وقت کی نمبر ون انگلینڈ کی ٹیم کے خلاف ٹیسٹ سیریز 3-0 سے جیتی تھی۔ انعام میں انہیں نہ صرف کوچنگ سے الگ کر دیا گیا بلکہ ان پر پاکستان کرکٹ بورڈ کے دروازے بھی بند کر دئیے گئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب ڈیو واٹمور کو کیا انعام ملتا ہے۔ امید ہے کہ ان کی حوصلہ افزائی ہی فرمائی جائے گی۔ کیونکہ بہرحال وہ ایک کوالیفائیڈ کوچ ہیں۔

ای پیپر دی نیشن