پاکستان میں بجلی کے کریک ڈاﺅن کی خبر سن کر امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی نے بھی ایک دوسرے کو فون کالز کرنا شروع کردیں اور اکثریت نے اسے بڑے پیمانے کی دہشت گردی کی منصوبہ بندی قرار دیا ۔ ہر زبان پر رحمان ملک کا نام تھا۔ملک کے اندھیروں میں ڈوب جانے کے پیچھے کسی بڑی سازش کا اندیشہ ظاہر کیا گیا۔ایک ایسا ملک جہاں ہر وقت دہشت گردی کی پیشگوئیاں کی جاتی ہیں،عوام کو خوف و ہراس میں مبتلا رکھا جاتاہے،اس ملک میں تاریکی کا چھا جانا غیر معمولی عمل تھا۔پاکستانیوں کو”کچھ ہو جانے“ کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ پیپلز پارٹی کسی صورت انتخابات نہیں چاہتی ۔فوج کی جانب سے الیکشن کی حمایت نے عوام کو ریلیف دیا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے شعبدہ بازوں کا منہ بند کر کے سازشوں کا دروازہ بند کر دیا ہے۔رحمان ملک کے لشکر جھنگوی کے ساتھ تعلقات وقت ثابت کرے گا۔ابھی یہ اقتدار میں ہیں اور انہیں ”بیرونی طاقتوں “ کی پشت پناہی حاصل ہے مگر شہنشاہی ختم ہوتے ہی ان کا اصل روپ سامنے آ جائے گا۔ بیرونی طاقتیں آنکھیں اور مہرے تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتیں۔ حقائق لاکھ پردوں میں بھی عیاں ہو جاتے ہیں۔وقت خود ثبوت پیش کرے گا۔
کرائے کے قاتلوں کے موصوف کے ساتھ رابطوں کی بھی اطلاعات ہیں۔پنجاب دشمنی کا سبب ملک کی ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچانا ہے۔پنجاب کو بھی ہزارہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ فوج آجائے اور انتخابات التواءکا شکار ہو جائیں۔وفاقی حکومت نے مختلف علاقوں میں خفیہ اداروں کے تین سو کے قریب اہلکاروں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔جن اہلکاروں کو تبدیل کیا جارہا ہے ان کی اکثریت صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں تعینات ہے۔حکومت کا کہنا ہے کہ ان اہلکاروں کو نا اہلی کی وجہ سے تبدیل کیا جا رہاہے۔ان اہلکاروں پر الزام ہے کہ ان کے شدت پسندتنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں۔کوئٹہ کے واقعات کے بعد گورنر بلوچستان نے خفیہ ایجنسی کے افسران کی کارکردگی پر سخت تنقید کی تھی۔ان کا کہنا تھاکہ اس قسم کے واقعات خفیہ اداروں کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔رحمان ملک بھی خفیہ ایجنسیوں کے افسران کے کالعدم تنظیموں کے ساتھ تعلقات کا عندیہ دے چکے ہیں۔حکومت کی جانب سے انتخابات سے پہلے اس قسم کے فیصلے خود کو صادق اور امین ثابت کرنے کی سیاسی چال ہے۔”صادق اور امین“ اس قدر وزنی خطابات ہیں کہ ان کے سنتے ہی بندے کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں ۔نبی کریم ﷺ کی صفات پر پورا اترنا تو درکنار آج کے نام نہاد مسلمان میں اس کی جھلک بھی دکھائی نہیں دیتی، بالخصوص سیاستدانوں میں صادق و امین کی تلاش ملک و قوم کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔میاں نواز شریف صادق و امین امیدواروں کی تلاش میں اپنے پرانے علاقے گوالمنڈی بھی تشریف لے گئے ۔حالانکہ صادق و امین کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہوتا کہ وہ الیکشن کا ٹکٹ حاصل کر سکے۔میاں نواز شریف کو چاہئے کہ پرانے پاپیوں اور بڈھوں کو بار بار موقع دینے کی بجائے صاف ستھری یوتھ کو آگے لائیں مگر ایسا نہیں ہو رہا اور اس حقیقت کی میں بھی گواہ ہوں۔نوجوان صادق و امین نہیں تو پرانے پاپی بھی نہیں۔سیاسی جماعتوں میں کارکنوں کی آمدو رفت اور جوڑ توڑ ” باسی دال کو تازہ ابال کے مترادف ہے۔ پرانی بوتل پر نیا لیبل چسپاں کر دینے سے شراب کا ذائقہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔جس نام نہاد مسلم معاشرے میں بالٹیوں کے حساب سے شراب پی جاتی ہے ،وہاں صاد ق و امین کے بارے میں سوچنا بھی گناہ ہے۔الا ما شا ءاللہ صرف کاروباری امیر طبقہ ہی شراب کا رسیا نہیں بلکہ سیاسی و صحافتی دنیا میں بھی غیر ملکی شراب پینا لبرل سٹیٹس کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ٹی وی پر الا ما شا ءاللہ دانشورانہ اور درویشانہ گفتگو فرمانے والے معروف صحافیوںکا اصل چہرہ بھی غیر ملکی دوروں کے دوران بے نقاب ہوتا ہے۔ان صحافیوں اور سیاستدانوں کے بارے میں خود ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ یہ لوگ جیب سے شراب تو درکنار کھانا کھانا بھی حرام سمجھتے ہیں۔ دو روز قبل بھی شراب کی بڑی لانچ پکڑی گئی ۔یہ تاریخی کارنامہ انجام دینے والے افسران خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ایف بی آر نے ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ مقدار میں غیر ملکی شراب پکڑی ہے ۔ذرائع کے مطابق غیر ملکی شراب سے بھرا جہاز خلیجی ریاست سے جونہی پاکستان کی ساحلی حدود میں داخل ہواتو کسٹم انٹیلی جنس ٹیم نے ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ کے لگ بھگ ایک غیر ملکی شراب کی بوتلیںاور شراب لانے والی لانچ کو حراست میں لے لیا۔ ہمارے ایک ایماندار عزیز افسر نے واہگہ بارڈر سے امپورٹ ہونے والی شراب قبضے میں لی تو اس کا تبادلہ کرا دیا گیا۔وہ باز نہ آیا اور اس نے وہاں جا کر بھی صدر زرداری کی جانب سے ابو ظہبی سے آئے مہمانوں کے لئے بھیجے جانے والے تحائف قبضے میں کر لئے اور اس گستاخی کی پاداش میںاس کے خلاف بے بنیاد مقدمہ بنا دیا گیا۔صادق و امین افراد کے لئے پاکستان کی زمین تنگ کر دی جاتی ہے۔الا ما شا ءاللہ بیوروکریٹس کی حالت بھی شرمناک ہے۔ اس سب کے باوجود مایوسی کی بات نہیں ،پاکستان میں ابھی راست گو لوگوں کی بھی کمی نہیں البتہ انہیں مظلوم کی دعا تو مل سکتی ہے ، الیکشن کا ٹکٹ نہیں مل سکتا۔سیاستدان اپنے دشمن خود کیوں کر پیدا کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں جو کام چوری چھپے ہوا کرتے تھے اب کھلم کھلا ہوتے ہیں۔جمہوریت غلط کاموں سے نہیں روکتی البتہ صادق و امین کی تلاش جاری ہے۔”باسی دال کو تازہ بگھار “کافارمولہ طنزو مزاح کا نشانہ بنا ہوا ہے۔