اسلام آباد میں دہشت گردی کے سنگین خطرہ کی اطلاع نے وفاقی پولیس اور سیکیورٹی حکام کو ویک اپ کال دے دی جس سے عام شہری بھی خوف و ہراس کی فضا میں مبتلا ہوچکے ہیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور کو بریفنگ دیتے ہوئے وزارت داخلہ کے کرائسس منیجمنٹ سیل کے ڈائریکٹر جنرل طارق لودھی نے جب یہ بتایا کہ اسلام آباد کالعدم تنظیموں کی موجودگی کے باعث جن میں القاعدہ ، تحریک طالبان پاکستان اور لشکر جھنگوی بھی شامل ہیں انتہائی خطرناک شہر کی صورت اختیار کر چکا ہے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کرائسس منیجمنٹ سیل کے سربراہ کے اس بیباک بیان پر وفاقی پولیس کے سربراہ آئی جی سکندر حیات نے فوری طور پر سینئر پولیس افسران سے سیکیورٹی کی صورتحال پر میٹنگ کی آئی جی نے نوائے وقت کو بتایا کہ انہوں نے کرائسس منیجمنٹ سیل سے درخواست کی ہے کہ انہیں بھی بریفنگ میں دکھائی گئی وہ سلائیڈ دی جائیں جن میں اسلام آباد کو خطرناک ترین شہر کے طور پر بتایا گیا ہے تاکہ اس کی روشنی میں سیکیورٹی انتظامات کا نئے سرے سے جائزہ لیا جا سکے اسلام آباد میں کچھ عرصہ سے بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن بھی جاری ہیں کچی آبادیوں اور افغان بستیوں کو اس سرچ آپریشن میں پولیس نے فوکس کر رکھا ہے اسلام آباد صرف ایک شہر نہیں بلکہ اس میں روزانہ راولپنڈی ، مری ، ٹیکسلا ، گوجر خان ، کہوٹہ ، کوٹلی ستیاں ، کلر سیداں ، واہ کینٹ اور مضافاتی علاقوں سے ہزاروں شہری کام کاج کاروبار کیلئے آتے ہیں کسی شہر میں خطرے کی گھنٹی بجنا دراصل ملک بھر کے عوام کیلئے تشویش کی صورتحال تو پیدا کرتا ہی ہے یہ بریفنگ ایک سرکاری ادارے کے سربراہ کی جانب سے دی گئی ہے اس لئے اسے یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جانا چاہئے عوام کے جان و مال کا تحفظ پولیس کی اولین ذے داری ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کیلئے اسے شفاف اقدامات بھی کرنے چاہئیں تاکہ عوام میں نہ تو خوف و ہراس پھیلے اور نہ ہی ان کی روزمرہ کی زندگی میں خلل پیدا ہوسکے گذشتہ چند ماہ کے دوران اسلام آباد میں پولیس نے دہشت گردی کے کئی منصوبے ناکام بنا نے کے دعوے بھی کئے ہیں بھارہ کہو میں بارود سے بھری گاڑی کی برآمدگی ، چک شہزاد میں سابق صدر پرویز مشرف کے گھر کے قریب سے بارود بھری گاڑی کے پکڑے جانے ، سابق صدر کے عدالت میں پیشی کے موقع پر مختلف مقامات سے دھماکہ خیز مواد برآمد کرنے ، ترنول میں دھماکہ خیز مواد کی تین مرتبہ کھیپ قبضے میں لینے کے واقعات بھی وہ اپنے موثر سیکیورٹی انتظامات کی وجہ قرار دیتی ہے سیکیورٹی خدشات میں پولیس کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں داخل ہونے کے170 سے زیادہ راستے ہیں جن کی فول پروف سیکیورٹی بھی کریں تو کوئی نہ کوئی سقم تو رہ ہی جاتا ہے ایس ایس پی آپریشنز ڈاکٹر محمد رضوان نے تو اپنا چارج سنبھالنے کے چند روز بعد ہی اسلام آباد میں یہ کہہ کر کھلبلی مچادی تھی کہ مارگلہ کے پہاڑوں سے شہر میں دہشت گردی کا خطرہ ہے جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تو شہر کی فضائی نگرانی بھی شروع کی تھی کرائسس منیجمنٹ سیل کے سربراہ کی بریفنگ میں پولیس کسی حد تک مبالغہ آرائی ہونے کا عنصر بھی سمجھتی ہے تاہم اس کے باوجود یہ پولیس کی ہی ذمے داری ہے کہ وہ شہریوں کیلئے پرامن فضا قائم رکھے اور اس کیلئے پولیس کی جانب سے ہونے والے اقدامات بھی شفاف ہونے چاہئیں عوام کی پریشانیوں میں اضافہ کرنے والے اقدامات پہلے ہی اسلام آباد میں بہت زیادہ ہیں تقریباً پورا اسلام آباد ہی سیکیورٹی کے لحاظ سے ریڈ زون بنا ہوا ہے عوام کی آمد ورفت میں پریشانی کم سے کم رکھی جانی چاہئے یہی اچھی پولیسنگ بھی قرار پاتی ہے ۔