حکومت کو چاہئے کہ اپنے عوام کے ساتھ سچ بولیں ۔وزیر اعظم قوم سے خطاب کریں اور قوم کو حقیقت بتائیں کہ فوج نے آپریشن شروع کر دیا ہے اور حکومت اور فوج قوم کی سپورٹ چاہتی ہے۔ وزیراعظم پر اللہ نے بھاری ذمہ داری ڈال دی ہے۔ میاں نواز شریف نے ایک بار کہا تھا کہ قدم بڑھاﺅ نواز شریف اور جب مڑ کر دیکھا توچند بندے کھڑے تھے۔ اس وقت بھی چند بندے کھڑے ہیں ورنہ اکثریت تماشبین کی ہے۔محکمہ موسمیات کی جانب سے دیوار پر لکھ دیا گیا ”آج بارش نہیں ہو گی“ (نہیں) کچی روشنائی سے لکھا تھا تاکہ بارش ہونے کی صورت میں (نہیں) مٹ جائے اور صرف لکھا رہ جائے ”آج بارش ہو گی“۔ عوامی حلقوں کا حال بھی کچی روشنائی کی پیشگوئی کی طرح ہے۔ وثوق کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ لوگ گول مول تجزئے اور تبصرے کر رہے ہیں۔ حالیہ صورتحال میں بھی ’قدم بڑھاﺅ نواز شریف‘ کی گونج سنائی دے رہی ہے مگر الٹے پاﺅں کھسک جانے کی بھی تیاری مکمل ہے۔ جماعت اسلامی کا مسئلہ ان کا مسلک اور سوچ ہے۔ وہ طالبان کو بھی ناراض نہیں کر سکتے اور آئین کو بھی خیر باد کہنے سے معذور ہیں۔ ملک کو کیسے بچایا جا سکتا ہے یہ فیصلہ فقط وزیراعظم نواز شریف کو کرنا ہے۔ خدا نے انہیں ایک آمر کی پھانسی سے بچایا‘ شاید ان سے کوئی بڑا کام لینا مقصود تھا۔ نواز شریف کے امتحان کا وقت اب آیا ہے۔ لیڈر وہی ہوتا ہے جو بے باک اور جراتمندانہ فیصلے کر گزرے،دشمن کو پہچان جائے اور سب سے پہلے اپنے گھر کو بچانے کی فکر کرے۔ سعودی عرب پاکستان کو شام کی لڑائی میں کودنے کی دعوت دے رہا ہے۔ گو کہ حکومتی ترجمان اس خبر کی تردید کر چکے ہیں مگر ذرائع کے مطابق سعودی عرب شام میں باغیوں کو طیارہ شکن راکٹس اور ٹینکس کی فراہمی کے لئے پاکستان سے بات چیت کر رہا ہے۔ پاکستان کے چیف آف اسٹاف جنرل راحیل شریف نے حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ اسکے بعد ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز پاکستان آئے تھے۔ سعودی عرب سے جب کوئی شہزادہ تشریف لاتا ہے، عوام کا ”تراہ“ نکل جاتا ہے کہ شاید مشرف کو محفوظ راستہ دلانے آئے ہیں جبکہ یہاں معاملہ اس سے بھی زیادہ سنجیدہ بتایا جا رہا ہے باغیوں کی حمایت سے ایران کی دشمنی مول لینا ہے۔ ایران پاکستان کا پڑوسی دوست ملک ہے۔ پاکستان پہلے ہی فرقہ وارانہ نار جہنم میں جھلس رہا ہے، سعودی عرب اور ایران کی متعصبانہ جنگ میں پاکستان مزید دلدل میں پھنس جائے گا۔ پاکستان کسی ایک خاندان کا نہیں بلکہ کروڑوں خاندانوں کا ملک ہے۔ ایک طرف ایران کی برہمی، دوسری جانب سعودی عرب کا دباﺅ،تیسری طرف امریکہ کی ناراضگی چوتھی جانب بھارتی داﺅ پیج.... پاکستان انتہائی تشویشناک صورتحال سے دوچار ہے۔ ڈرون حملے بند کرو،ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہیں، ڈرون انتقام کی آگ بھڑکاتے ہیں، لو اب ڈرون حملے بند ہو گئے ہیں۔۔۔ خواہ چند دنوں کے لئے ہی سہی۔۔۔ مگر فرعون بند نہیں ہوئے۔ فرعون اور ڈرون ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ ڈرون اوپر سے بم پھینکتے ہیں اور فرعون زمین سے بمباری کرتے ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو دشمن قرار دیتے ہیں۔ کس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں؟ ڈرون اور فرعون ایک ہی ریموٹ کے کنٹرول میں ہیں۔ پاکستان کی حکومتیں اور عوام ڈرون حملوں کے بارے میں تقسیم ہو چکے ہیں۔ عوام دہشت گردی کا سبب ڈرون حملوں کو سمجھتے ہیں جبکہ حکومتیں ڈرون حملوں کو دہشت گردی کے خاتمے میں مددگار سمجھتی ہیں۔ نواز حکومت کی گزارش پر امریکہ نے طالبان سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے عارضی طور پر بند کر دیئے مگر انسانوں کو ذبح کرنے والے فرعونوں کی بربریت کا سلسلہ جاری رہا۔ مذاکرات کا دروازہ کئی بار کھولا گیا مگر ہر بار ڈرون حملوں کو جواز بنا کر مذاکرات سے انکار کر دیا گیا۔ ڈرون تھم گئے مگر ظلم نہیں تھم سکا۔ ظالمانہ کارروائیاں کرنے والوں کو عرف عام میں طالبان کہتے ہیں اور طالبان کسی ایک جماعت کا نام نہیں بلکہ ان کے مختلف گروہ ہیں۔ دہشت گردی میں ملوث گروپس کا نام خواہ طالبان رکھ دیں یا ظالمان، مرنے والے کی گولی پر صرف ”قاتل“ لکھا ہوتا ہے۔ قاتلوں کا موقف ہے کہ وہ امریکہ کے خلاف جہاد کر رہے ہیں اور پاک سکیورٹی اداروں کو اس لئے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ امریکہ کے اتحادی ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وزیر ستان کے حساس علاقوں کو خالی کرا دیا جائے تا کہ شہریوں کی اموات کا کم سے کم اندیشہ ہو۔ ڈرون حملے ہیں یا فرعون کی بمباری‘ ایک گھناﺅنی سازش کا حصہ ہیں۔ ادھر پاک فوج نے شمالی وزیرستان میں جیٹ طیاروں سے باقاعدہ جنگ کا آغاز کر دیا ہے ادھر وزیراعظم ہنوز مذاکرات کا لارا لگائے ہوئے ہیں۔ جہاں ڈرون اور فرعون ایک صف میں کھڑے نظر آئیں وہاں کون سے مذاکرات؟ طالبان کے نزدیک کرکٹ حرام کھیل ہے، ہاکی میچ کی دعوت دے کر دیکھ لیں شاید مذاکرات کی راہ نکل آئے۔ میاں صاحب جو کرنا ہے جلدی کریں اور مڑ کر مت دیکھئے گا کہ واپسی کا راستہ بند ہو چکا!
قدم بڑھاﺅ نواز شریف لیکن مڑ کر نہ دیکھنا !
Feb 26, 2014