پاکستان کے نامور ماہر تعلیمات، اقبالیات پر اتھارٹی، اردو انگریزی اور پنجابی کے دانشور، سکالر، مصنف اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن ڈاکٹر نذیر قیصر صاحب کو اس دار فانی سے عالمِ جاودانی سدھارے 24 فروری کو ایک سال پورا ہوگیا 24 فروری کے قومی اخبارات میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کے بڑے بیٹے ڈاکٹر شہزاد قیصر، بہو شاہدہ قیصر اور خاندان کے دوسرے افراد کی طرف سے ڈاکٹر صاحب(مرحوم) کی پہلی برسی کے موقع پر بذریعہ اشتہار ڈاکٹر صاحب کے دوستوں کو اُن کی یاد دلائی گئی اور بقول شاعر مجھے ع
” آئی جو اُن کی یاد تو آتی چلی گئی“
ڈاکٹر نذیر قیصر صاحب سے میری نیاز مندی 1973ءسے تھی پھر پنجابی زبان سے ہم دونوں کی محبت دوستی میں بدل گئی۔ ڈاکٹر صاحب کہا کرتے تھے کہ 1857ءکی جنگِ آزادی میں پنجابیوں خاص طورپر پنجابی مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اس لئے انگریزوں نے پنجابی مسلمانوں اور اُن کی زبان کو ناپسندیدہ قرار دیدیا تھا۔ ڈاکٹر نذیر قیصر ”SELF MADE“ تھے۔ لڑکپن میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسوں میں شرکت کی اور قائداعظمؒ اور اُن کے ساتھیوں کی تقریریں سن کر تحریکِ پاکستان کے کارکن بن گئے ۔ابھی میٹرک میں تھے کہ انہیں اردو اور فارسی میں مہارت حاصل ہوگئی۔ علامہ اقبال سے لگاﺅ تھا۔ اُن کا اردو اور فارسی کا کلام پڑھا۔ ڈاکٹر صاحب انٹرمیڈیٹ میں تھے کہ انہوں نے سر سیّد کیمبرج سکول قائم کیا۔ (1950ءمیں) پھر بی اے اور ایم اے لندن یونیورسٹی سے ” پوسٹ گریجویٹ سرٹیفکیٹ اِن ایجوکیشن “ کا ڈپلومہ کیا۔ 1957ءمیں فلسفہ میں ایم اے کیا پھر
”Rumis impacton iqbals religious thoughts“
کے عنوان سے تھیسس لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
بھارت کے ایک سکالر ٹی ایس رستوگی نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا " IQBAL AND WESTERN PHILOSOPHERS" اس کتاب میں مسٹر رستوگی نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ ” علامہ اقبالؒ نے جو کچھ لکھا وہ مغربی فلسفیوں کی دین تھا“ ۔ ڈاکٹر نذیر قیصر نے اُس کے جواب میں "IQBAL TODAY" کے عنوان سے کتاب لکھی اور اُس میں ثابت کیا کہ ” علامہ اقبالؒ نے قرآن پاک اور صوفی ازم سے روشنی لی تھی۔ ڈاکٹر نذیر قیصر صاحب پہلے سکالر تھے کہ جنہوں نے علامہ اقبال کو"PSYCHO THERAPIST"(نفسیاتی معالج) کے طورپر متعارف کرایا اس سلسلے میں ڈاکٹر صاحب نے "A CRITIC OF WESTERN PSYCHOLOGY AND PSYCHOTHERAYPY IQBALS APPROACH" لکھی۔ ڈاکٹر نذیر قیصرکہا کرتے تھے کہ ہم جب تک "CHILD EDUCATION" کو فروغ نہیں دیں گے نئی نسل کا مستقبل روشن نہیں ہوگا“۔ ڈاکٹر نذیر قیصر نے اپنی تصانیف میں اقبال کے مردِ مومن کا تصّور اُجاگر کیا۔
ڈاکٹر نذیر قیصر ہمارے پنجابی صوفی شاعروں کے حوالے سے پنجابی زبان کے فروغ کے علمبردار تھے لیکن پاکستانی اور بھارتی پنجاب میں بولی اور لکھی جانے والی پنجابی کو ”اِک مِک“ کرنے اور ”سانجھا پنجاب“ کے خلاف تھے۔اُن کا موقف تھا کہ ” جب الگ الگ مذہب اور الگ الگ ثقافت کی بنیاد پر پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا تو محض زبان کی بنیاد پر ”سانجھا پنجاب“ کا خواب شرمندہ¿ تعبیر کیسے کیا جا سکتا ہے؟“۔ 2 دسمبر 2004ءکو مجھے وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے دورہ¿ بھارت میں ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کے وفد کے ساتھ ” عالمی پنجابی کانفرنس“ میں شرکت کا موقع ملا۔ میں نے پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے سائنس آڈیٹوریم میں سِکھ دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں اور اُن کے پاکستانی ہم نواﺅں کی موجودگی میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”1947ءمیں پنجاب میں 10لاکھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا تھا، جس میں میرے خاندان کے 26 افراد بھی شامل تھے۔پنجاب کی سرحدی لکیر میں میرے خاندان کے لوگوں کا خون بھی شامل ہے۔( پھر میں نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا )” مَیں ایہہ سرحدی لکیر نئیں مِٹن دیاں گا“۔
میرے لڑکپن کے دوست سرگودھا کے علامہ چودھری اصغر علی کوثر وڑائچ بھی موقع پر موجود تھے۔علامہ صاحب نے بھارتی پنجاب میں میری للکار کو موضع بنا کر ” نوائے وقت “ میں 2کالم لکھے۔ان کا پہلا کالم” پاکستان ‘اکھنڈ بھارت کا لقمہ نہیں بن سکتا“13اپریل2005ءکو شائع ہوا اور دوسرا کالم ” اثر چوہان کی صاف گوئی“ 2مئی 2005ءکو ۔ڈاکٹر نذیر قیصر صاحب نے دونوں کالم پڑھے اور مجھے ٹیلی فون پر شاباش دی پھر مَیں اُن سے مزید شاباش لینے کیلئے اُن کے گھر پہنچ گیا۔ ڈاکٹر نذیر قیصر کے بڑے بیٹے ڈاکٹر شہزاد قیصر اردو، پنجابی اور انگریزی کے شاعر، ادیب، سکالر، مصنف اور حُب الوطنی میں اپنے والد کے حقیقی جانشین ہیں۔پنجابی زبان کے فروغ کے علمبردار ہونے کے باوجود ” سانجھا پنجاب“ کے مخالف ہیں۔ اُن کا نظریہ ہے کہ ”پاک بھارت سرحدی لکیر رسالت کی لکیر ہے جو قیامت تک قائم رہے گی“۔ پاک بھارت سرحدی لکیر کے بارے میں مجاہدِ تحریک پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی بے حد جذباتی ہیں۔ مَیں نے اپنے پنجابی جریدہ ” چانن“ کے نومبر 2011ءکے شمارے میں جنابِ نظامی کا انٹرویو شائع کیا۔ مَیں نے پوچھا ” کچھ لوک پنجابی زبان دی بنیاد تے سانجھا پنجاب دا نعرہ لا رہے نیں تے پاک بھارت سرحدی لکیر نُوں مٹاون دی کوشش کر رہے نیں۔ تُسیں کیہ کہندے او ؟‘تو جناب مجید نظامی نے کہا ” پاک بھارت سرحدی لکیر نُوں ہور پکا کرن دی لوڑ اے۔ جیہڑے لوک ایس لکیر نوں مٹاون دی کوشش کر رہے نیں او ایتھوں ( پاکستان سے) دفع ہوجان“۔
ڈاکٹر نذیر قیصر تحریکِ پاکستان اور تحفظ پاکستان کیلئے جناب حمید نظامی(مرحوم) اور محترم مجید نظامی کی خدمات کے بے حد معترف تھے۔ ڈاکٹر صاحب جناب مجید نظامی کی سرپرستی میں سرگرمِ عمل ” تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ“ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن تھے۔ انہوں نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور جنابِ نظامی کی چیئر مین شپ میں فعال ” نظریہ پاکستان ٹرسٹ“ کی لائبریری کیلئے 25 لاکھ روپیہ عطیہ دیا۔ اب یہ لائبریری ” ڈاکٹر نذیر قیصر لائبریری“ کے نام سے منسوب ہے۔ ڈاکٹر نذیر قیصر کی کتابوں اور اُن سے بہت سی ملاقاتوں میں مجھے بہت کچھ ملا۔ درویشی میں اُن کے بیٹے ڈاکٹر شہزاد قیصر اپنے والد سے بھی آگے نکل گئے۔ شہزاد صاحب 1987ءمیں ملتان کے ڈپٹی کمشنر تھے جب ملتان روڈ لاہور کے فٹ ہاتھ پر جوتیاں گانٹھنے والے ایک درویش صوفی محمد طفیل کے مُرید بن گئے ۔ صوفی محمد طفیل کے وصال کے بعد ڈاکٹر شہزاد قیصر اُن کے خلیفہ ہیں۔ ڈاکٹر شہزاد قیصر 2010ءمیں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے سپیشل سیکرٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے تھے۔ ان دنوں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے رکن اور اقبال اکیڈمی کے اعزازی وائس پریذیڈنٹ ہیں۔ ڈاکٹر نذیر قیصر کی صاحبزادی مسز شگفتہ ملک، بہوﺅں اور بیٹیوں شاہدہ اور ڈاکٹر شہزاد قیصر نگینہ اور شاہ رخ قیصر حمیرا اور ذی شان قیصر نگہت اور شاہد قیصر اور خاندان کے تمام بچوں کی طرف سے ڈاکٹر نذیر قیصر صاحب کی پہلی برسی کے موقع پر شائع ہونے والے اشتہار نے مجھے اُن کی یادوں سے مالا مال کردیا ہے۔ مَیں نے کئی بار دیکھا کہ وہ عام طورپر نوجوان کو علامہ اقبالؒ کی زبان میں یہی پیغام دیا کرتے تھے کہ ....
” خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے !
کہ تیسرے بحر کی موجوں میں ، اضطراب نہیں!“
مَیں سوچ رہا ہوں کہ اگرڈاکٹر نذیر قیصر صاحب آج زندہ ہوتے تو ” دہشت گردی کے طوفانِ بد تمیزی“ میں حکمرانوں اور عوام کو کیا پیغام دیتے ؟