کراچی (نوائے وقت نیوز + این این آئی +آئی این پی) سندھ اسمبلی نے منگل کو مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی فورسز کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک متفقہ قرارداد منظورکرلی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ طالبان کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے اور طالبان کی حمایت کرنے والی سیاسی و مذہبی جماعتوں کا مکمل سوشل بائیکاٹ کیا جائے۔ یہ قرارداد سندھ اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اور اپوزیشن لیڈر سید فیصل علی سبزواری نے پیش کی تھی۔ تحریک انصاف نے بھی قرارداد کی حمایت کی لیکن طالبان سمیت ان دہشت گردوں کی مذمت کرنے پر بھی زور دیا، جو سندھ خصوصاً کراچی میں طویل عرصے سے خونریزی کررہے ہیں۔ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان مسلح افواج، رینجرز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور پاکستان کی بقا و سلامتی کے لیے طالبان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں ان کے ساتھ ہے۔ یہ ایوان مساجد، امام بارگاہوں، بزرگان دین کے مزارات، غیر مسلم پاکستانیوں کی عبادت گاہوں، سکولوں اور بازاروں میں خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور دہشت گردی کے واقعات کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیتا ہے۔ یہ ایوان طالبان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کیے گئے مسلح افراج، رینجرز، ایف سی، لیویز اور پولیس افسران، جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ یہ ایوان متفقہ طور پر یہ قرارداد پیش کرتا ہے کہ پاکستان اور طالبان ایک ساتھ نہیں چلے سکتے۔ یہ ایوان قانون نافذ کرنے والے اداروں سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ ریاست کی رٹ چیلنج کرنے والے طالبان دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔ سید فیصل سبزواری نے کہا کہ اب بہت ہوگیا ہے۔ قوم کی اجتماعی دانش کا تقاضا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو کر اٹھ کھڑا ہوا جائے۔ دہشت گرد اقلیت میں ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ وزیر بلدیات و اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پاکستان میں ’’ظالمان‘‘ کی جانب سے خوف کی فضا پیدا کی گئی ہے۔ مساجد، امام بارگاہ، میلاد اور عاشورہ کے جلوس، سکول، فوج، رینجرز، ایف سی، سیاست دان اور عام لوگ محفوظ نہیں۔ ساری برائی کی جڑ طالبان ہیں۔ یہ بندق کے زور پر اپنے ناپاک عزائم مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ پورا پاکستان ایک آواز بن کر ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔ انہوں نے کہا کہ طالبان نہ تو مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان ہیں۔ یہ وحشی اور درندے ہیں اور ان کے ساتھ درندوں والا سلوک کرنا چاہئے۔ پاکستان کے عوام کو اپنے دلوں سے ان کا خوف نکال دینا چاہئے موت ایک دن آنی ہے۔ دریں اثنا سندھ اسمبلی نے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ حکومت صوبے میں تمام فرقوں اور مذاہب کی عبادت گاہوں کے تحفظ کو یقینی بنائے، وہاں سکیورٹی اہلکار تعینات کرے اور عبادت گاہوں کی رجسٹریشن کی پالیسی مرتب کرے۔ یہ مطالبہ ایک متفقہ قرارداد میں کیا گیا، جو ایم کیو ایم کے رکن کامران اختر اور دیگر نے پیش کی تھی۔ اس سے قبل سینئیر صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے کہا کہ وفاقی حکومت ایک جانب بجلی کی پیداوار میں اضافے کے دعوے کررہی ہے دوسری جانب غیر اعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے، جس کی وجہ سے سندھ کے دیہی علاقوں میں قائم صنعتیں تباہی کا شکار ہیں اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر بجلی پیدا کرنے کے دعوے کئے جارہے ہیں تو لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟ نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ جعلی بل بھیج کر لوگوں کو پریشان کیا جاتا ہے، شکارپور اور لاڑکانہ کے لوگوں کو بجلی چور کہنا عوام کی توہین ہے، وہ لاہور اور لاڑکانہ کا ایشو نہیں بنانا چاہتے مگر اس طرح کی باتیں کرنا لاڑکانہ سمیت سندھ کے ساتھ ناانصافی ہے، وفاق سندھ کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ فوری طور پر بند کرے، بعد ازاں ایوان نے قرارداد منظور کرلی جس میں کہا گیا ہے کہ حکومت سندھ وفاق کو غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے بارے میں آگاہ کرے۔ علاوہ ازیں سندھ نے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹ انسٹی ٹیوٹ (ای او بی آئی) اور اس کا فنڈ صوبوں کے حوالے کیا جائے۔ اس فنڈ میں 43 فیصد حصہ سندھ کا ہے۔ اس بات کا انکشاف منگل کو سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کیا۔ وقفہ سوالات محکمہ محنت سے متعلق تھا۔ ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ سندھ حکومت کی درخواست پر ای او بی آئی کا معاملہ مشترکہ مفادات کی کونسل (سی سی آئی) کے گذشتہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا تھا لیکن اس پر غور نہیں کیا جاسکا۔ حکومت سندھ کی یہ کوشش ہے کہ ان سارے اداروں کا کنٹرول حاصل کیا جائے، جو 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل کئے گئے ہیں۔ صوبوں کو منتقل کیے گئے تعلیم اور صحت سے متعلق امور کا مسئلہ بھی طے نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت ہائر ایجوکیشن کمشن کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔