پاکستان دشمن قوتیں فوج کو’’پوائنٹ آف نوریٹرن‘‘ پر لے جانے کیلئے کوشاں ہیں: سید منور حسن

Feb 26, 2014

لاہور(خصوصی نامہ نگار) امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے کہا ہے کہ اے پی سی میں تمام جماعتوں نے آپریشن کی مخالفت کی تھی اور مذاکرات کو مسئلے کا حل قرار دیا تھا۔ جماعت اسلامی ملک میں امن و امان کے قیام کیلئے آج نہیں، 1971ء سے کسی بھی جگہ فوجی آپریشن کی مخالفت کرتی آرہی ہے لیکن اسلام و ملک دشمن قوتیں آرمی آپریشن کے ذریعے حالات کو ’’نوریٹرن‘‘ پوائنٹ پر لے جانے کی کوشش کررہی ہیں تاکہ جس طرح1971ء میں پاکستان کو دولخت کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں ایک بار پھر اپنے انہی مکروہ عزائم کو پورا کرسکیں۔ بلوچستان میں پانچواں فوجی آپریشن ہے لیکن حالات سدھرنے کے بجائے مسلسل خرابی کی طرف جارہے ہیں ۔امریکہ اور بھارت کی بھی یہی خواہش ہے کہ پاکستانی افواج کو ایسی دلدل میں دھکیل دیا جائے، جہاں سے یہ نکلنے نہ پائے۔ ملک انتشار اور انارکی کا شکار ہوگا، جس کی آڑ میں امریکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو عالمی کنٹرول میں لینے کا کھیل کھیلے گا اور پھر یہی مذاکرات کی مخالفت کرنے والے جوہری اثاثوں کو بلا ضرورت قرار دیکر بین الاقوامی کنٹرول میں دینے کی باتیں کررہے ہونگے، حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ۔فوج اور حکومت کی پیٹھ ٹھونکنے والوں کا ماضی گواہ ہے کہ وہ کتنے محب وطن ہیں ،ملک پر جب بھی کوئی آفت پڑی یا ملکی سلامتی کے تحفظ کا مسئلہ پیش آیا جماعت اسلامی نے ہی فوج کے شانہ بشانہ قربانیاں پیش کیں، جس کی سزائیں ہم بنگلہ دیش میں آج بھی بھگت رہے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے  جمعیت طلبہ عربیہ کے وفد سے ملاقات کے موقع پر کیا ۔سید منورحسن نے امید ظاہر کی کہ حکومت کی طرف سے مذاکرات کو ترجیح د ی جائے گی اور حکومت کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرے گی جو ملک وقوم کو انارکی کی دلدل میں دھکیل دے اور دہشت گردی سے پیچھا چھڑانا ممکن نہ رہے ،انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی کو کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفیکیت لینے کی ضرورت نہیں ہے ، جماعت اسلامی کی مذاکرات کے ذریعے امن کی خواہش کو بعض جماعتیں منفی رنگ دے کر جماعت اسلامی پر طالبان کی نمائندگی کرنے کے الزام لگا رہی ہیں تاکہ وہ اپنے گھنائونے ایجنڈے کو پورا کرسکیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کو اسلام کا قلعہ اور امت کی امیدوں کا مرکز و محور سمجھتے ہیں ،ملکی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کیلئے جماعت اسلامی کی قربانیوں کی پوری قوم معترف ہے۔

مزیدخبریں