اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ مذاکرات اور آپریشن ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ مذاکرات تب ہوں گے جب طالبان ہتھیار ڈال کر ہمارے قیدی رہا کر دیں گے۔ انہوں نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز دی اور کہا کہ سنا ہے آج وزیراعظم قومی سلامتی پالیسی پر اعتماد میں لیں گے۔ وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں حکومتی لائحہ عمل سامنے لائیں گے تب ہی اپنا ردعمل دیں گے۔ امید ہے وزیراعظم قوم کے مفاد میں فیصلہ کریں گے۔ قومی سلامتی پالیسی جب پارلیمنٹ میں پیش ہو گی تب موقف دیں گے۔ سنیٹر کا وزیراعظم کے اجلاس میں نہ آنے کا گلہ دور ہو جائے گا۔ اگر ادارے چلانا حکومت کا کام نہیں تو پھر امن و امان کی ناکامی کی صورت میں فوج اور پولیس کی بھی نج کاری کر دی جائے۔ اطلاع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف آج بدھ کے روز ایوان زیریں میں اہم پالیسی بیان دے رہے ہیں۔بہتر یہ ہوگا کہ اس موقع پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا لیا جائے۔وزیراعظم کا بیان یقیناً پالیسی بیان ہوگا اور اہمیت کا حامل ہوگا۔ مشترکہ اجلاس کی بدولت سینیٹ کا یہ احساس بھی کم ہوجائے گا کہ تمام اہم اعلانات اور پالیسی بیانات صرف قومی اسمبلی میں دئیے جاتے ہیں۔حکمران جماعت کے چیف وہپ آفتاب شیخ نے کہا کہ ہمیں وزیراعظم کی آمد کی کوئی اطلاع نہیں لیکن اس کے باوجود قائد حزب اختلاف کا پیغام حکومت کو پہنچا دیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز قومی اسمبلی سے خطاب اور مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا پیپلز پارٹی کے دور میں کسی ادارے کی نج کاری نہیں ہوئی۔ میٹرو بس منصوبے پر اربوں روپے ضائع کئے جا رہے ہیں مجھے خوف ہے کہیں نواز شریف کو پاکستان کی نج کاری کا خیال ہی نہ آ جائے نج کاری کی مخالفت کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف سمیت حزب اختلاف کی دیگرسیاسی جماعتوں نے حکومت کی نجکاری پالیسی پرکڑی تنقیدکرتے ہوئے کہاہے کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ملک بدترین حالات کا شکار ہے، ہمیں ڈر ہے کہ نواز شریف کے دور میں کہیں پاکستان کی نجکاری کا بھی اشتہار نہ آجائے،وزیراعظم کایہ کہناکہ ادارے چلانا حکومت کا کام نہیں صاف جھوٹ ہے۔ اینٹی پرائیویٹائزیشن کے زیر اہتمام نیشنل پریس کلب میں عالمی ماحولیاتی اداروں کی ایماء پر قومی اداروں کی نجکاری کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے کبھی اقتدار کی نہیں ہمیشہ مزدوروں کیلئے جنگ لڑی ہے۔ میرا حکومت سے سوال ہے کہ مسلم لیگ کے نمائندے کہتے ہیں کہ ادارے چلانے حکومت کا کام نہیں تو وہ مجھے بتائیں کہ حکومت کا کیا کام ہے۔ حکومت آج تک ملک میں امن تک بحال نہیں کرسکی تو کیا وہ اس وجہ سے محکمہ پولیس کو بھی پرائیویٹائز کردیں گے۔ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک بدترین حالات کا شکار ہے، لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 8 گھنٹے سے بڑھ کر20 گھنٹے تک جا پہنچا ہے، عوام کو گیس نہیں مل رہی۔ حکومت نے عوام کو اتنا ڈرا دیا ہے کہ وہ سڑکوں پر آنے سے خوفزدہ ہیں لوگوں کو پیپلز پارٹی کا دور یاد آرہا ہے ۔ اگر اسی طرح نجکاری ہوتی رہی تو مجھے خوف ہے کہ نواز شریف کے دورہ حکومت میں ہی کہیں پاکستان کی نجکاری کا ہی اشتہار نہ آجائے ، اگر حکومت ملک کے اداروں کو بیچ کر یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے رہی ہے تو یہ غلط ہے۔ ہماری واضح پالیسی ہے ہم نجکاری کے خلاف ہیں اگر مزدور اپنے حق کیلئے نہ بھی نکلیں تو ہم ان کیلئے سڑکوں پر آئینگے۔ ہم انشاء اللہ پارلیمنٹ کے اندر بھی عوام کی آواز بنیں گے اور باہر دھرنوں میں بھی ان کے ساتھ شریک ہونگے۔ تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے کہاکہ میں آج نواز شریف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہوں کہ جو وہ کہتے ہیں کہ ادارے چلانا حکومت کا کام نہیں یہ صاف جھوٹ ہے۔ پی آئی اے دنیا کی چند تیز ترین ترقی کرنیوالی ایئر لائنز میں سے ایک ہے ہم کسی قیمت پر اس ادارے کی نجکاری نہیں ہونے دیں گے۔