کشمیر پر دوٹوک مو¿قف اختیار کریں اور شملہ معاہدہ کو پاﺅں کی زنجیر نہ بننے دیں

بھارتی سیکرٹری خارجہ کے آئندہ ماہ کے دورہ¿ پاکستان کی دوطرفہ تصدیق اور توقعات و خدشات

بھارتی وزارت داخلہ کے ترجمان سید اکبرالدین نے بھارت کے سیکرٹری خارجہ سبرامینم جے شنکر کے آئندہ ماہ مارچ میں دورہ¿ پاکستان کی تصدیق کر دی ہے اور اس سلسلہ میں پاکستان کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر پاکستان بھارت مذاکرات 3 مارچ سے 9مارچ تک متوقع ہیں جن کا ایجنڈا طے کرنے کیلئے دونوں ممالک کے سفارتکاروں کے مابین رابطوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ کے ترجمان کے بقول بھارت کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے اور ہم شملہ معاہدہ کے تحت بات چیت کیلئے مکمل تیار ہیں۔ بھارتی دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق سبرامینم آئندہ 2مارچ کو بنگلہ دیش جائینگے اور وہاں سے پاکستان آئینگے۔ ان کا دورہ¿ پاکستان بھی انکے جنوبی ایشیائی ممالک کے دورے کا حصہ ہے۔ دوسری جانب دفتر خارجہ پاکستان نے آئندہ ماہ 3مارچ کو بھارتی سیکرٹری خارجہ کے دورہ¿ اسلام آباد کا عندیہ دیا ہے۔ اس سلسلہ میں ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ کا یہ دورہ 13 فروری کو پاکستان بھارت وزرائے اعظم کی ٹیلی فونک بات چیت کے دوران طے پایا تھا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات کے ایجنڈے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق اس مجوزہ ملاقات کے حوالے سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دونوں ممالک میں خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر معطل مذاکرات بحال ہو گئے ہیں۔ 

بھارت اگر مسئلہ کشمیر سمیت تمام متنازعہ ایشوز پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر طے کرنے کیلئے خلوص دل سے آمادہ ہے تو اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے مگر ان مذاکرات کی اب تک کی کہانی تو یہی بتاتی ہے کہ بھارت نے ہمیشہ اپنی ضرورت کے تحت پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی بات کی اور پھر وہ کسی نہ کسی حیلے بہانے سے مذاکرات کی میز خود ہی الٹا کر رعونت کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند کرتا رہا ہے۔ گزشتہ سال ستمبر میں اسلام آباد میں طے شدہ خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات بھی بھارت نے پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کی کشمیری حریت رہنماﺅں سے ملاقات کو جواز بنا کر ختم کئے جبکہ اس سے پہلے کانگرس آئی کے دور حکومت میں نئی دہلی میں پاکستان بھارت وزراءخارجہ کے جاری مذاکرات بھی خود بھارت نے ممبئی حملوں کو جواز بنا کر ختم کئے اور اس وقت کے وزیر خارجہ پاکستان شاہ محمود قریشی کو فی الفور پاکستان واپس جانے کا حکم دیا جس کے بعد اس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے سرحدوں پر کشیدگی بڑھاتے ہوئے پاکستان کو سخت پیغام دیا کہ وہ اب کشمیر کو بھول جائے۔ بعدازاں شرم الشیخ کانفرنس کے دوران پاکستان بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات میں منموہن سنگھ نے مذاکرات کی بحالی کا عندیہ دیا اور پھر تھمپو میں بھوٹان سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر برف مزید پگھلی جس کے دوران پاکستان بھارت وزراءاعظم کی ون آن ون ملاقات میں منموہن سنگھ نے رسمی اعلان کر دیا کہ وہ کشمیر سمیت تمام تنازعات پر پاکستان سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ انکے اس بیان پر بھارت واپس پہنچتے ہی انہیں لینے کے دینے پڑ گئے اور بھارتی لوک سبھا میں اس وقت کی اپوزیشن بی جے پی ہی نہیں‘ حکمران کانگرس کے ارکان نے بھی انکے بخیئے ادھیڑ دیئے جس پر انہیں پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اپنے بیان سے منحرف ہونا پڑا۔ اس سے قبل کی پاکستان بھارت مذاکرات کی کہانی بھی ایسے ہی تلخ و ترش مناظر کا مجموعہ نظر آتی ہے جبکہ بھارت نے مذاکرات کیلئے کبھی اخلاص کا مظاہرہ نہیں کیا‘ بالخصوص کشمیر کو مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کرنے سے تو اسے گھن آتی ہے اور کسی بھی سطح کے مذاکرات میں جیسے ہی پاکستان کی جانب سے کشمیر کا تذکرہ کیا جاتا‘ بھارت سرکار بدک کر مذاکرات کی بساط الٹا دیتی۔ کانگرس آئی کے اقتدار کے آخری دنوں میں اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی کشمیر سمیت تمام ایشوز پر پاکستان سے مذاکرات کا عندیہ دیا مگر ساتھ ہی یہ بھی باور کرادیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے جس میں کسی قسم کا ردوبدل بھارت کو قبول نہیں۔ یہی وہ بنیادی ایشو ہے جس پر اول تو بھارت مذاکرات کی راہ پر نہیں آتا اور اگر اسکی جانب سے مذاکرات کیلئے پیش رفت کی جاتی ہے تو ساتھ ہی کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دے کر مذاکرات کے آئیڈیا کو غیرموثر بنا دیا جاتا ہے۔ صرف 1972ءکا ایک ایسا مرحلہ ہے جب شملہ میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو اور بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کے مابین مذاکرات کے نتیجہ میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جو بھارت کو سوٹ کرتا تھا اس لئے اسے قابل قبول ہو گیا چنانچہ اب بھی بھارت مذاکرات کی بات کرتا ہے تو اس کیلئے شملہ معاہدے کو مشروط کرتا ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے طے کیا تھا کہ دونوں ممالک اپنا ہر مسئلہ باہم مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ہی طے کرینگے اور کوئی بھی متنازعہ معاملہ کسی عالمی فورم پر نہیں اٹھایا جائیگا۔ اس معاہدے کا بنیادی مقصد کشمیریوں کے استصواب کے حق کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کا راستہ روکنے کا تھا۔ بھٹو مرحوم نے پاکستان کے اس وقت کے حالات کی روشنی میں ملک کی سالمیت کیخلاف مزید بھارتی سازشوں کا دروازہ بند کرنے کیلئے اس معاہدے کی ہزیمت اٹھائی ہو گی کیونکہ اس وقت بھارتی سازشوں سے سقوط ڈھاکہ کا سانحہ ہو چکا تھا اور بھارتی قید سے 95 ہزار پاکستانی فوجیوں اور دوسرے سویلینز کو آزاد کرانا مقصود تھا تاہم اس معاہدے سے کشمیر کا تنازعہ ہرگز ختم نہیں ہوا تھا۔ اگر بھارت پاکستان کے مفادات کے منافی طے پانے والے اس شملہ معاہدہ کا ہی احترام کرتا اور دوطرفہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھ کر کشمیر سمیت پاکستان سے تمام تنازعات طے کرنے کی سنجیدہ کوشش کرتا تو دونوں ممالک آج پرامن بقائے باہمی کے فلسفہ کی بنیاد پر باہمی امن و آشتی کی فضا استوار کر چکے ہوتے مگر پاکستان کو سکون سے رہنے دینا بھارت کا مطمع نظر ہی نہیں ہے جو کشمیر پر اپنا غاصبانہ تسلط برقرار رکھ کر درحقیقت پاکستان کی سلامتی ختم کرنا چاہتا ہے۔
اگر بھارت کی یہ نیت نہ ہوتی تو میاں نوازشریف کے دوسرے دور اقتدار میں بھارتی وزیراعظم واجپائی کے دورہ¿ لاہور میں باہم مذاکرات کے ذریعے دوطرفہ تنازعات طے کرنے کیلئے جن خوش فہمیوں کا دوطرفہ اظہار کیا گیا‘ اسکی بنیاد پر بھی اب تک پاکستان بھارت تنازعات طے ہو چکے ہوتے مگر بھارتی قیادتوں کے گلے میں تو ہمیشہ کشمیر کی پھانس اٹکی رہتی ہے جو اسے اٹوٹ انگ قرار دینے کی پالیسی میں سرِمو لچک پر بھی آمادہ نہیں ہوتا۔ یہی وہ بھارتی ہٹ دھرمی ہے جس نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے جنرل مشرف کے یکطرفہ طور پر پیش کئے گئے چار نکاتی فارمولے کو بھی بھارت کیلئے قابل قبول نہیں ہونے دیا تھا اس لئے اب بھارت خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر کشمیر سمیت تمام تنازعات پر مذاکرات کا عندیہ دے رہا ہے تو اس کیلئے بھارت کی نیت پر ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں بھلا کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے جبکہ بالخصوص بھارتی مودی حکومت پاکستان کے معاملہ میں زیادہ جارحانہ طرز عمل رکھتی ہے اور انہی کے دور میں کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر کشیدگی کو انتہاءتک پہنچا کر وادی¿ کشمیر کی ہئیت تبدیل کرنے کی آئینی سازش کی گئی ہے۔ اس فضا میں مودی سرکار کا پاکستان پر یکایک ریشہ خطمی ہونا اس شبہے کو ہی تقویت پہنچاتا ہے کہ ”ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں“
ہمارے سابق اور موجودہ حکمرانوں کی جانب سے بھارت کے ساتھ دوستی‘ تجارت اور اقتصادی‘ ثقافتی تعلقات استوار کرنے کی یکطرفہ کوششوں میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی گئی جس سے بادی النظر میں یہ تاثر پیدا ہوتا رہا ہے کہ حکمران خاندان اپنے کاروباری مفادات کی خاطر بھارت کے ساتھ کشمیر پر سودے بازی کئے بیٹھے ہیں۔ تاہم بھارت کے ہاتھوں گزشتہ سال خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات سبوتاژ ہونے کے بعد ہمارے حکمرانوں کو عقل آئی اور انہوں نے کشمیر ایشو اور بھارت کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں واضح اور دوٹوک مو¿قف اختیار کیا۔ اس سلسلہ میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے واضح طور پر باور کرایا کہ بھارت نے مذاکرات کا دروازہ خود بند کیا ہے‘ اس لئے اب مذاکرات کیلئے پیشرفت بھی اسی کی جانب سے ہو گی۔ پھر وزیراعظم میاں نوازشریف نے یوم یکجہتی¿ کشمیر کے موقع پر مظفرآباد لیجسلیٹو اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے اسی مو¿قف کا اعادہ کیا جبکہ اسی دوران اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے یو این ہیومن رائٹس کمیٹی میں درخواست بھی پیش کردی۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارتی یوم جمہوریہ کے موقع پر امریکی صدر اوباما کے دورہ¿ بھارت میں علاقائی بالادستی کیلئے ہونیوالے امریکہ بھارت گٹھ جوڑ سے علاقائی تعاون کی حکمت عملی یکسر تبدیل ہوئی اور پاکستان چین قربتوں میں اضافے سے امریکہ کو تشویش لاحق ہوئی تو اوباما کو مصلحتاً بھارتی وزیراعظم کو پاکستان سے معاملات بہتر بنانے کیلئے مجبور کرنا پڑا جس کے بعد اوبامہ نے وزیراعظم نوازشریف سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا اور انہیں پاکستان بھارت مذاکرات کی بحالی کیلئے ”مثبت“ پیغام دیا۔ اس تناظر میں پاکستان بھارت مذاکرات کی یہ نئی تحریک مصلحتوں اور مفادات میں لپٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ ہمیں یقیناً مذاکرات سے انکار نہیں اور اگر دوطرفہ تنازعات باہمی مذاکرات سے طے پاتے ہیں تو یہ اس خطہ کی بھی خوش بختی ہو گی اور اس سے عالمی امن کی بھی ضمانت مل جائیگی مگر ہمیں ماضی کے تجربات کی روشنی میں بھارتی عزائم سے بہرصورت آگاہ رہنا ہے۔ بھارت کیساتھ کسی بھی سطح پر مذاکرات میں ہماری جانب سے کشمیر پر سودا بازی کرنے کا شائبہ بھی نہیں ملنا چاہیے۔ بھارت کیساتھ آبرومندی اور ٹھوس مو¿قف کے تحت مذاکرات کی میز پر بیٹھیئے اور اگر ماضی کی طرح وہ اب بھی مذاکرات سبوتاژ کرتا ہے تو شملہ معاہدہ نے ہمارے ہاتھ پاﺅں نہیں باندھ رکھے‘ ہم مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی فورم کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن