ایوان بالا یا ایوان تہ و بالا

سینٹ کو ایوان بالا کہتے ہیں آج کل یہ ایوان تہ و بالا بنا ہوا ہے۔ سیاست کا کاروبار زوروں پر ہے۔ ایک ایک پارلیمنٹیرین کی قیمت دو کروڑ سے دس کروڑ تک ہے۔ ایک ہی چیز کی قیمت میں اتنا فرق کبھی دیکھا نہیں گیا۔ یہ تو قیمت نہیں قیامت ہے۔ پہلی خرید و فروخت ٹکٹ کے حوالے سے ہوتی ہے۔ ایک ٹکٹ کے لئے کئی کروڑ قیمت ہے جسے پارٹی فنڈ کہا جاتا ہے۔ کوئی قابل آدمی اس قابل نہیں ہوتا کہ سینٹ کے ٹکٹ کا سوچ بھی سکے۔ جبکہ ٹکٹ لینے والے بھی ’’قابل‘‘ ہوتے ہیں۔ وہ کشش والے کابل ہوتے ہیں۔ آج کل کابل کے حالات پاکستان کے لئے اتنے اچھے نہیں ہیں۔ وہاں کسی سیاستدان یا حکمران کی بجائے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو جانا پڑتا ہے۔ نواز شریف کو تسلی ہے کہ چلئے ان کے نام کے ساتھ شریف تو ہے۔ راحیل شریف
ایم کیو ایم تو مڈل کلاس والوں کی پارٹی ہے مگر یہاں بھی ارب پتی لوگوں کو ٹکٹ ملتا ہے۔ میاں عتیق شالیمار گروپ آف انڈسٹری کو ایم کیو ایم کی طرف سے ٹکٹ ملا ہے جبکہ پنجاب میں دن رات محنت کرنے والوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ ہم افتخار رندھاوا سے واقف ہیں بلکہ دوست ہیں۔ وہ بہت مخلص اور استقامت والا آدمی ہے۔ خود الطاف حسین بھائی بھی اس کے ساتھ محبت رکھتے ہیں۔ رائو خالد بہت جنونی آدمی ہے۔ اس نے ملتان میں ایم کیو ایم کے لئے بے پناہ کام کیا ہے۔ افتخار رندھاوا کے بعد اس نوجوان کو بہت کریڈٹ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ زاہد ملک ہیں۔ میں انہیں تب سے جانتا ہوں جب میرے دوست نوید خان نے ایم کیو ایم جائن کرنے کا ارادہ کیا تھا اور مجھ سے مشورہ کیا تو میں نے برجستہ تائید کی۔ میں الطاف حسین کے لئے کچھ باتوں کی خاطر بہت مداح ہوں۔ مڈل کلاس کی حمایت۔ جاگیرداری سرمایہ داری کی مخالفت۔ بلکہ الطاف بھائی کی طرف سے اوے جاگیردارا کہنا اچھا لگتا ہے۔ عمران خان کا اوے نواز شریف کہنا اچھا نہیں لگتا۔ الطاف حسین کے لئے لوگ اس حوالے سے ایسے اقدامات کی توقع رکھتے ہیں جو دوسرے کاروباری سیاستدانوں سے مختلف ہوں۔
اس حمام میں سب ننگے ہیں اور کسی ننگے کو دوسرے ننگوں سے شرم نہیں آتی۔ پچھلے کسی الیکشن میں مولانا فضل الرحمن نے جے یو آئی کی طرف سے سینٹ کا ٹکٹ اعظم سواتی کو دے دیا تھا اور حافظ حسین احمد  کو نہ دیا۔ انہیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ بھی نہ دیا گیا تھا کہ انہوں نے حضرت مولانا سے ذرا سا اختلاف کیا تھا۔ حافظ صاحب کو دوسری کئی پارٹیوں سے ٹکٹ کی پیشکش ہوئی مگر انہوں نے انکار کر دیا کہ میں صرف جے یو آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑوں گا۔ اس وفا کی معرکہ آرائی کے بعد بھی حضرت مولانا کو احساس نہ ہوا اور حافظ کو کسی قابل نہ سمجھا گیا۔
وزیراعظم سواتی عمران خان کے پہلو میں آ بیٹھا ہے۔ امید ہے کہ اسے تحریک انصاف کی طرف سے سینٹ کا ٹکٹ مل جائے گا مگر صرف خیبر پختون خوا سے کس کس کو ٹکٹ ملے گا۔ جہانگیر ترین کی ’’معاشی خدمات‘ بہت زیادہ ہیں کسی نوجوان اور اہل آدمی کو عمران خان کی طرف سے ٹکٹ نہیں ملے گا ورنہ میں خواجہ جمشید امام کے لئے سفارش کرتا ہوں بلکہ اس کے لئے گزارش کرنے میں بھی مجھے کوئی عار نہیں ہے۔ جمشید بٹ علیم خان کی بہت تعریف کرتا ہے۔ کوئی ارب پتی اگر ٹکٹ کا مستحق ہے تو وہ صرف علیم خان ہے۔ اگر موجودہ ماحول میں ووٹ خریدنے ہی پڑے تو وہ یہ کام بھی دوسروں کی نسبت زیادہ وقار اور اعتبار سے کرے گا۔ آج کل ووٹ اور نوٹ میں فرق مٹ گیا ہے ہمارے ہر طرح کے ممبران ووٹ لینے اور نوٹ کمانے میں فرق نہیں کرتے۔ اربوں لگا کے ایوان بالا بلکہ ایوان تہہ و بالا میں آنے والے کھربوں تو کمانے کا ’’حق‘‘ رکھتے ہیں؟
خواجہ سعد رفیق نے اعلان کیا ہے کہ ہم خیبرپختون خواہ میں تحریک انصاف کے فارورڈ بلاک سے رجوع نہیں کریں گے وہاں کوئی مداخلت بھی نہیں کریں گے۔ خواجہ سعد اپنے امیر کبیر ٹکٹ ہولڈرز کو ووٹ خریدنے سے کیسے منع کریں گے۔ ووٹ خرید کر سینٹر بننے والوں کی اکثریت ہوتی ہے۔ مگر میرا شاگرد درست شاعر سجاد بخاری بھی سینٹر بن جاتا ہے سجاد بخاری ایک زمانے تک پیپلز پارٹی کا اخبار چلاتا رہا ہے۔ اب اس کا اپنا اخبار ہے۔ اس کا سینٹ میں ہونا ایک اچھی تھی میانوالی سے برادرم اکبر خواجہ کو بھی بے نظیر بھٹو نے ٹکٹ دیا تھا اور وہ بھی سینٹر بن گیا تھا یہ کریڈٹ تو شہید بی بی کو جاتا ہے۔
نواز شریف امیر کبیر اور کاروباری لوگوں کی زیادہ تر ٹکٹ دیتے ہیں۔ اسمبلیوں کے ٹکٹ اور ناحق طور سینٹ کے لئے ٹکٹ آدمی کی مالی حیثیت دیکھ کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ ہمارا سیاسی بلکہ جمہوری کلچر ہے۔ مگر نواز شریف نے پرویز رشید کو بھی ٹکٹ دیا ہے۔ وہ درویش دوست اکثر مجھ سے خفا رہتا ہے۔ مجھے دوستوں سے بھی اختلاف ہوتا ہے مگر اختلاف کرنے کا حق صرف اسے ہے جو اعتراف کرنا بھی جانتا ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایوان بالا کو ایوان تہہ و بالا بنانے والوں کی اکثریت ہوتی ہے مگر چند جینوئن اور پڑھے لکھے لوگوں میں پرویز رشید بھی ہیں میں تو چاہتا تھا کہ عرفان صدیقی کو بھی ٹکٹ دیا جاتا۔ اس نے اپلائی نہیں کیا تھا مگر پھر بھی اسے ٹکٹ دیا جاتا۔ مشاہد اللہ خان اور جنرل قیوم بھی مستحق لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پنجاب کے کوٹے میں تین سندھیوں کو بھی ٹکٹ ملا ہے۔ اس پر بہت اعتراض کیا جا رہا ہے مگر سندھ میں ن لیگ کی اتنی نمائندگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ کسی حد تک ضروری بھی تھا۔ مگر پنجاب کا حق بہر حال اس سے متاثر ہوا ہے سندھ سے ٹکٹ ہولڈر سلیم ضیا ایک عام آدمی ہیں۔ ان کے لئے بے حد مخلص اور محنتی  وفا حیا والے برادرم خواجہ عمران نذیر نے بتایا کہ جب ہم جاوید ہاشمی کی رہائی کے موقع پر کوٹ لکھپت جیل جا رہے تھے تو ہماری گاڑی کے آگے چنگ چی رکشے پر جو بندہ جیل کی طرف جا رہا تھا وہ سلیم ضیا تھا میں نے سوچا کہ ایسے شخص کو ٹکٹ ملنے پر ہمیں خوش ہونا چاہئے۔
سنا ہے کہ مسلم لیگ ن نے فیصلہ کیا ہے کہ آئینی ترمیم کے ذریعے سینٹ کے لئے ووٹنگ کے طریق کار کو بدل دیا جائے۔ شو آف ہینڈ کے ذریعے اپنے ووٹ کا اظہار کیا جائے۔ یہ بہت اچھی بات ہے۔ ہمارے ہاں آئینی ترمیم چند گھنٹوں میں کر لی جاتی ہے اور ابھی تو الیکشن میں چند دن باقی ہیں۔ یہ تجویز مشاہد حسین اور کئی سیاستدانوں کی طرف سے دی جا رہی ہے۔ پھر یہ کہ کچھ آسانی ہو گی مگر جن کو خریدو فروخت کا چسکا لگا ہوا ہے۔ وہ اپنی عادت سے باز نہیں آئیں گے۔ ووٹ یعنی ضمیر خریدیں گے اور بیچیں گے۔ یہ اپنی ماں بیچنے کی طرح ہے۔
جن دنوں جنرل مشرف نے امیدوار کے لئے بی اے کی شرط لگائی تھی تو جعلی ڈگریوں کا کاروبار شروع ہو گیا تھا شو آف ہینڈ کے لئے آئینی ترمیم آنے کے بعد بھی کاروبار میں کمی نہیں آئے گی۔ کاروبار سیاست اور حکومت چلتا ہی رہے گا۔ اس طرح کی ’’ساز گار‘‘ صورتحال میں چودھری شجاعت تعریف کے مستحق ہیں کہ انہوں نے دوبارہ سینٹ کے الیکشن میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن