سپر لیگ سے پہلے اور بعد کا پاکستان

Feb 26, 2016

امتیاز احمد تارڑ

پی ایس ایل کے انعقاد سے پاکستان کا ایک روشن چہرہ دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اس سے قبل دنیا ہمیں دہشت گرد، لسانی گروہوں میں تقسیم، بم دھماکوں، قتل و غارت، تعلیم دشمن، فرقہ واریت میں تقسیم کے نام سے جانتی تھی اور یہ سارے عیب ہمارے چہرے پر ایک زناٹے دار طماچے سے کم نہ تھے کیونکہ ہم اخلاقی اقدار سے عاری، انصاف کے معنی و مفہوم سے ناآشنا اور اپنی انا کے گنبد میں بند ایک خود سر اور خدا فراموش قوم ہیں۔ ان اوصاف کی بنا پر دنیا جب چاہتی اسامہ اور اپنے طالبان تخلیق کرکے ہمیں مورد الزام ٹھہراتی اور ہماری جی حضوری کا عالم یہ تھا کہ جمہوری آمرانہ، شاہانہ اور فوجی طرح کی سبھی حکومتیں ان الزامات کے سامنے سرخم تسلیم کرتے ہوئے اسے اپنے سر تھوپ لیتی تھیں۔ ہمارے دانشور بھی قوم کو دو جمع دو چار جیسی حقیقتوں کی موشگافیوں میں الجھا کر ہمارا کرپٹ امیج دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے اور ہمیں دنیا بھر میں سیاسی گروہی لسانی دھڑوں میں بٹی قوم اور جتھوں میں منقسم کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ ہمارے اندر سے حمیت اور خودی کو نکال کر ہمیں بے جان کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ جب انسان کے اندر سے عشق مصطفی کی آگ بجھ جائے تو آدمی واقعی راکھ کا ڈھیر بن کے رہ جاتا ہے۔ اس کی رگوں میں دوڑتے لہو کی ساری حرارت ختم ہو جاتی ہے۔ اسکے عزم جواں کو وسوسوں کا آسیب اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے لیکن پی سی بی نے ہمارے اس چہرے پر ماسک چڑھا کر دنیا کے سامنے ہمارا اصل روشن چہرہ پیش کیا۔اسمیں مرکزی کردار نجم سیٹھی کا تھا۔ انکی انتھک کوششوں سے پاکستان سپر لیگ کا انعقاد ممکن ہوا۔ اس لیگ کو دنیا بھر کے میڈیا نے کوریج دی اور پشاور آرمی سکول کے مسکراتے چہروں سے لیکر کوئٹہ، اسلام آباد، کراچی، پشاور اور لاہوریوں کے ہشاش بشاش اور مسکراتے چہرے بھی وہاں نظر آئے،3مارچ 2009 کے حملے کے بعد سے ہمارے میدانوں میں ویرانیوںنے ڈیرے ڈال رکھے تھے ۔ ہماری کرکٹ ایک عرصے سے بیچارگی کے بھنور میں غوطے کھا رہی تھی لیکن کامیاب لیگ کے بعد اس کا نام بھی نقش پر ابھر کر سامنے آیا ہے ۔ سپر لیگ میں آسٹریلیا، بنگلہ دیش، افغانستان، افریقہ نیوزی لینڈ سمیت دنیا بھر سے کھلاڑی شامل تھے۔ وہ نہ صرف گھل مل کر ہمارے کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلتے رہے بلکہ کسی نے پشتو بول کر پشاور سے محبت کا اظہار کیا تو کسی نے شلوار قمیص اور واسکٹ پہن کر عاطف اسلم کے ساتھ اردو میں پی ایس ایل کا گانا گنگنایا۔ ہر کسی نے خوب انجوائے کیا اور دنیا کو باور کروایا کہ اصل پاکستان یہ ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا آپ کے سامنے جس پاکستان کی تصویر پیش کرتا ہے وہ اصل پاکستان نہیں ہے بلکہ اصل پاکستان تو ہم نے دبئی میں ہنستا مسکراتا دہشت گردی سے نفرت کرتا اور لوگوں سے پیار کرتا دیکھا ہے جس میں ساری قوموں سے تعلق رکھنے اور سب زبانیں بولنے والے ہر قبیلے اور خاندان سے تعلق رکھنے والے ہر رنگت کے لوگ متحد نظر آئے۔ ہر کوئی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتا نظر آیا۔کسی نے رخسار پر سبز ہلالی پرچم کی پینٹنگ کروا رکھی تھی تو کسی نے اپنے ہاتھوں میں چاند ستارے والا پرچم تھام رکھا تھا۔ کوئی پنجابی میں کوئی پشتو میں کوئی سرائیکی میں کوئی سندھی او رکوئی ہندکو میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ یہ ساری کاوشیں اس میڈیا سے تعلق رکھنے والے شخص کی تھیں۔ جی ہاں اسی میڈیا سے تعلق رکھنے والے کی جس میڈیا کے ایک اینکر کے بارے ہمارے وزیر اطلاعات کہتے ہیں یہ ’’دجال‘‘ ہیں۔کاش پرویز رشید کامیاب سپر لیگ کو دیکھتے اور پھر اپنے منہ سے نکلے الفاظ کو دیکھتے ،سیاستدان تو آج تک عوام کو ایسا کھیل نہیں دے سکے جو ایک میڈ یا پرسن نے دیا ہے ، اس کھیل میں پاکستان کا بڑا ٹیلنٹ سامنے آیا ہے ،اس کھیل میں پیش آنے والا ایک واقعہ شاید میں لکھنا بھول جاتا لیکن اسکی جانب میری توجہ نوجوان کرکٹر ملک طلحہ بلال نے کروائی واقعہ یوں ہے کہ پاکستان سپرلیگ میں خدا سرفراز اور اسکے ساتھیوں کو سرفراز کئے جارہا ہے ، سر جھکا کے عاجزی سے بات کرنے والا یہ بھولا سا بندہ اس وقت پاکستان کے بہت سے لوگوں کی پسند بن گیا ہے، مسلسل و شاندار فتوحات نے اس میں نہ کوئی اکڑ پیدا کی ہے اور نہ ہلکا سا بھی غرور۔۔۔ بطور کھلاڑی بھی اسکی پرفارمنس عموماً اچھی ہی رہتی ہے بالخصوص اہم اور نازک مواقع پہ تو اکثر بہت ذمہ داری کا ثبوت دیتا ہے جیسا کہ گزشتہ سال کے ورلڈ کپ میں بھی جب ٹیم کی نیا ڈوب رہی تھی اور اسے مسلسل نظرانداز کرنے کے بعد بالکل آخری مراحل میں جب موقع دیا گیا تھا تو اس نے اپنی شاندار کارکردگی سے سب ہی ناقدین کو خاموش کروا دیا تھا۔ اسی قابل بھروسہ کارکردگی کی وجہ سے ایک بھارتی فلم کا کسی اور کردار کیلئے کہے گئے اس مشہور ڈائیلاگ ’’سرفراز دھوکا نہیں دیگا‘‘ کو ہر چینل نے کرکٹر سرفراز کے اعتراف ہنر کیلئے استعمال کرکے بار بار دہرایا تھا۔جہاںتک کپتانی کی بات ہے تو یہ بات ایک مسلمہ حقیقت کا درجہ رکھتی ہے کہ ایک نااہل کپتان کی کوتاہیوں کی وجہ سے بعض اوقات ٹیم بے پناہ محنت اور شاندار صلاحیتیں ضائع ہوجاتی ہیں ،،، یوں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ کپتان کی ذات کی وجہ سے بہت فرق پڑتا ہے اور درحقیقت ایک لائق کپتان اپنے آپ میں خود ہی آدھی ٹیم کے برابرہوتا ہے اور اس شعبے میں بھی سرفراز نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے کرکٹ کے ہر شائق کو بھی بیحد متاثر کیا ہے ،،، اس نے ایک نظرانداز کردہ ٹیم کوئٹہ گلیڈیئٹرز کو مکمل یکجان کردیا اور اب یہ ٹیم کامرانیوں کے نئے سنگ میل عبور کرتی جارہی ہے، سچ تو یہ ہے کہ جب یہ ٹورنامنٹ شروع ہوا تھا تو کوئٹہ کی ٹیم کو تو کوئی اہمیت ہی نہیں دے رہا تھا،، اس ٹیم کو تو سپانسرز کے اشتہارات تک نہیں مل رہے تھے، ہر طرف کراچی اور لاہور یا پھر پشاور ہی کے ناموں کے ڈنکے زور و شور سے بج رہے تھے۔ اس نے وہ مرحلہ عبور کرنے میں سبقت حاصل کرلی ہے کہ جو ابھی دیگر ٹیموں کیلئے بہت بڑا خواب ہے اور یہ مقام یونہی اتفاقات کے نتیجے میں نہیں مل گیا بلکہ اسکے لئے سرفراز نے ٹیم کے ہر کھلاڑی کی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور کھلاڑی بھی پورے جوش و جذبے سے اسکا ساتھ دیتے نظر آئے۔ بڑے بڑے ناموں والے کرکٹرز پہ مشتمل طاقتور ٹیموں کی موجودگی میں کوئٹہ گلیڈیئیٹرز کی فائنل تک سب سے پہلے رسائی نے ایسے سب شائقین کرکٹ میں بے حد مقبول کردیا ہے کیونکہ اس نے نامساعد حالات میں بھی اپنی فائٹنگ اسپرٹ سے ان کے دلوں کو موہ لیا ہے، اس لیے تمام کھلاڑی عاجزی بھی کام لیں تو بہت اچھا ہے۔

مزیدخبریں