نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کا ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کا ٹھوس جواب دینے کا عزم اور بھارتی سازشوں کا تسلسل
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے نگہبان ادارے ’’نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی‘‘ نے قرار دیا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی ڈیٹرنس علاقہ میں استحکام کا سبب ہے اور خطہ میں پائیدار امن اور ترقی و خوشحالی کیلئے تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کا 22واں اجلاس گزشتہ روز وزیراعظم محمد نوازشریف کی زیر صدارت منعقد ہوا جس میں وزیر دفاع‘ وفاقی وزیر خزانہ اور مشیر خارجہ اور معاون خصوصی برائے خارجہ امور کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور تینوں مسلح افواج کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں عالمی اور علاقائی سلامتی کے ماحول کا مفصل جائزہ لیا گیا اور علاقہ میں روایتی اور ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کا نوٹس لیتے ہوئے اسکے خطہ کے امن و استحکام پر مرتب ہونیوالے مضر اثرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس سلسلہ میں اتھارٹی نے ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کا جواب دینے کیلئے ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہوئے بغیر تمام تر اقدامات اٹھانے کے عزم کا اعادہ کیا۔ اتھارٹی نے کہا کہ پاکستان کا ایٹمی ڈیٹرنس خطہ میں استحکام کا اہم عنصر ہے‘ اس حوالے سے ’’فل سپیکٹرم ڈیٹرنس‘‘ برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا اور طے کیا گیا کہ ملکی سلامتی کو لاحق کسی بھی خطرے کا مؤثر جواب دیا جائیگا۔ اجلاس میں ایٹمی تنصیبات کیلئے اقدامات پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ سانحۂ سقوط ڈھاکہ کے بعد بھارت نے 1974ء میں ایٹمی دھماکے کرکے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے تحفظ کیلئے اس وقت کی پاکستانی قیادت کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششیں بروئے کار لانے پر مجبور کیا تھا۔ یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ اس خطے میں پاکستان کے ساتھ ہی بھارت کی ازلی دشمنی ہے جو اس پر تین جنگیں مسلط کرچکا ہے اور پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر گزشتہ 60 سال سے زائد عرصے سے اپنا تسلط جمائے بیٹھا ہے جس کے باعث پیدا ہونیوالی کشیدگی کی فضا علاقائی اور عالمی امن کیلئے بھی سنگین خطرہ بن چکی ہے جبکہ بھارت امریکہ‘ فرانس‘ برطانیہ‘ جرمنی سمیت مختلف ممالک سے ایٹمی دفاعی تعاون کے معاہدے کرکے اور ان معاہدوں کی بنیاد پر ہر قسم کے روایتی‘ جدید ایٹمی اسلحہ اور دوسرے جنگی سازوسامان کے ڈھیر لگا کر خطے میں طاقت کا توازن بھی بگاڑ چکا ہے جبکہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکی آئے روز کی گیدڑ بھبکیوں اور پاکستان بھارت سرحدوں پر اسکی پیدا کردہ کشیدگی کی فضا سے علاقائی امن و سلامتی کا تحفظ ایک خواب بن چکا ہے۔ اسی طرح ’’اکھنڈ بھارت‘‘ پر مبنی بھارتی توسیع پسندانہ عزائم سے پاکستان کے علاوہ خطے کے دوسرے ممالک بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں جبکہ متعدد مواقع پر بھارت اس خطے کے اہم ترین ملک چین کی سلامتی کو بھی چیلنج کرچکا ہے اور سابق بھارتی آرمی چیف ایس کے سنگھ نے تو یہ بڑ بھی مار دی تھی کہ بھارت اپنی جنگی دفاعی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اسلام آباد اور بیجنگ کو بیک وقت 96 گھنٹے میں ٹوپل کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے بی جے پی کی موجودہ بھارتی حکومت تو پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور جنگی جنون میں تسلسل کے ساتھ اضافہ کررہی ہے اور پاکستان کی سلامتی کے درپے نظر آتی ہے جو کشمیر کی مقبوضہ وادی کے علاوہ پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات تک پر حریصانہ نظریں جمائے بیٹھی ہے اور اسی تناظر میں بھارت میں ہندو انتہاء پسندی کو فروغ دے کر بھارتی مودی سرکار پاکستان کیخلاف جنگی جنون بڑھا رہی ہے۔ اگر پاکستان کی قیادتوں نے ملک کی سلامتی کیخلاف بھارتی خطرات کو بھانپ کر وطن عزیز کو ایٹمی صلاحیتوں سے ہمکنار نہ کیا ہوتا تو بھارت نہ صرف پاکستان کو کب کا ہڑپ کرچکا ہوتا بلکہ اسکے توسیع پسندانہ عزائم پورے خطے کی سلامتی کو چیلنج کررہے ہوتے اس تناظر میں بلاشبہ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی پاکستان کی سلامتی محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی بھارتی سازشوں کے آگے بند باندھنے میں بھی معاون ثابت ہوئی ہے۔ خدا کے فضل سے آج پاکستان ایٹمی صلاحیتوں‘ استعداد اور ایٹمی وارہیڈز کی تعداد کے حوالے سے بھارت کے مقابلے کا ہی نہیں‘ اس سے بالاتر ایٹمی ملک بن چکا ہے جبکہ پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی اور صلاحیتوں کا بنیادی مقصد اپنی سلامتی کا تحفظ ہی ہے۔
بدقسمتی سے ایٹمی ٹیکنالوجی کے معاملہ میں امریکہ کا ہمیشہ دہرا معیار رہا ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں اسکے فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے امریکی سلامتی کے تحفظ کی قیمت اپنے بے بہا اور ناقابل تلافی جانی اور مالی نقصانات کی صورت میں ادا کی مگر امریکہ نے آج تک اس جنگ میں پاکستان کے کردار کو خلوص دل سے سراہا نہ اس پر اعتبار کیا۔ اسکے برعکس یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت شروع دن سے ہی پاکستان کی سلامتی کے درپے ہے‘ امریکہ نے اسے اپنا فطری اتحادی بنا کر علاقے کی تھانیداری دینے کی کوشش کی اور اس مقصد کیلئے نہ صرف بھارت کی ایٹمی صلاحیتوں اور استعداد کی حوصلہ افزائی کی بلکہ اسکے ساتھ ایٹمی دفاعی تعاون کے معاہدے کرکے اسکی ایٹمی صلاحیتوں میں مزید اضافہ کیا جس سے علاقائی و عالمی سلامتی کو سخت خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ آج بھارت میں بڑھتی ہوئی ہندو انتہاء پسندی سے بھی علاقائی امن و سلامتی خطرات کی زد میں ہے اور امریکہ بھارت دفاعی جنگی تعاون بھی خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی راہ ہموار کررہا ہے مگر پاکستان کی ایٹمی ٹیکنالوجی بھارتی توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھتی نظر آتی ہے تو امریکہ کبھی ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی کو منجمد کرنے اور اس پر شب خون مارنے کے منصوبے بناتا ہے اور کبھی پاکستان کو مزید ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول سے باز آنے کی ڈکٹیشن دیتا ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف کے گزشتہ سال اکتوبر کے دورۂ امریکہ کے موقع پر اسی حوالے سے پاکستان کو دبائو میں لانے کی امریکی حکمت عملی طے ہوئی تھی مگر ملکی اور قومی مفادات کے پیش نظر میاں نوازشریف نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیتوں میں تخفیف کی امریکی ڈکٹیشن قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اسکے بعد سے اب تک امریکہ کی بھارت پر نظرکرم زیادہ نظر آتی ہے جبکہ مودی سرکار کی پھیلائی گئی ہندو انتہاء پسندی اور کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کے اسکے عزائم کے پیش نظر آج پاکستان کو اپنی سلامتی کے تحفظ کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی اور صلاحیتوں میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں تو حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بھارت کیساتھ تعلقات کے معاملہ میں ٹھوس موقف اختیار کرنے اور دفاع وطن کیلئے ہمہ وقت تیار رہنے کی ضرورت ہے مگر آج بدقسمتی سے ہمارے حکمرانوں کا طرز عمل ملکی سلامتی اور قومی غیرت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نظر نہیں آرہا۔ بھارت تو ہمارے ساتھ دشمنی کی انتہاء تک پہنچا ہوا ہے اور پٹھانکوٹ حملے کے حوالے سے بھارتی وزیر دفاع پاکستان کو ایسی ہی تکلیف سے دوچار کرنے اور امریکی طرز کی کارروائی کرنے کی مسلسل گیدڑ بھبکیاں لگا رہے ہیں جبکہ مودی سرکار کی سرپرستی میں بھارت میں مذہبی بنیادوں پر تشدد کے رجحانات بالخصوص مسلم کش فسادات میں اضافہ ہورہا ہے جس کا ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اپنی حالیہ رپورٹ میں سخت نوٹس لیا ہے اور دنیا کو باور کرایا ہے کہ بھارت میں خطرناک حد تک پہنچنے والی عدم رواداری کی فضا سے علاقائی اور عالمی سلامتی خطرات کی زد میں ہے۔ گزشتہ روز مہاراشٹر میں ہندو انتہاء پسند تنظیموں بجرنگ دل اور شیوسینا کے غنڈوں نے ایک باریش مسلمان سب انسپکٹر کو سرعام تشدد کا نشانہ بھی بنایا ہے جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارتی مودی سرکار کے جنونی عزائم سے مستقبل قریب میں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو مزید کتنا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اس تناظر میں ہمارے حکمرانوں کو بھارتی عزائم کے توڑ کی ٹھوس حکمت عملی طے کرنی چاہیے جس کا عندیہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے اجلاس میں دیا گیا ہے مگر اسکے برعکس وزیراعظم نوازشریف پٹھانکوٹ حملہ کے حوالے سے بھارتی جارحانہ اور ناجائز تقاضوں کے آگے بچھے چلے جاتے نظر آتے ہیں اور بھارت کو یقین دلا رہے ہیں کہ ہم پٹھانکوٹ واقعہ کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کیلئے پرعزم ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومتی اور سیاسی قیادت کو بھارتی رویوں سے اب یہ جان لینا چاہیے کہ بھارت کبھی ہمارے ساتھ دوستی اور سازگار تعلقات کی راہ پر نہیں آئیگا اور اسکے برعکس وہ ہماری جانب سے ظاہر کی جانیوالی ہر کمزوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریگا۔ کیونکہ پاکستان دشمنی بھارت کی سرشت میں شامل ہے‘ اس تناظر میں ہماری حکومتی سیاسی قیادت کو ملکی سلامتی کے تحفظ کیلئے نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کے عزم کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہیے اور بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کی خوش گمانیوں سے باہر نکل آنا چاہیے۔ ملکی سلامتی کے تحفظ کا ہر تقاضا نبھانا بہرصورت انکی ذمہ داری ہے جس میں کسی لغزش کا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔