1980کی دہائی میں جب روس افغانستان پر حملہ آور ہوا تو ہمیں اپنی سلامتی خطرے میں نظرآئی۔ روس کی زارِ روس کے دور سے گرم پانیوں تک پہنچنے کی کوشش رہی ہے۔ یوں نظر آتا تھا کہ افغانستان کو زیر کرنے کے بعد روس بلوچستان کے راستے آگے بڑھ کر ہمارے سمندری ساحل تک پہنچنے کی کوشش کرے گا۔ روس کو بلوچستان میں روکنا ہمارے لئے ممکن نہ تھا اور نہ ہی اس تباہی کا سامنا کرنا ممکن تھا جو خدانخواستہ بلوچستان پر حملے کی صورت میں ہوتی۔ حالات کا تقاضا تھا کہ جنگ پاکستان کی سر حدوں کے اندر نہ آنے دی جائے۔ واحد راستہ روس کو افغانستان میں ہی روکنا تھا۔ ہماری خوش قسمتی یا بد قسمتی امریکہ کو بھی موقع مل گیا کہ وہ ویت نام میں روس کے ہاتھوں اٹھائی گئی ہزیمت کا بدلہ لے۔ امریکہ نے بھی یہ موقع غنیمت جانا کہ روس کو افغانستان میں شکست دی جائے۔روس کو افغانستان میں روکنے کا قرعہ فال پاکستان کے نام نکلا لہٰذا پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کرنا پڑا۔امریکہ نے دنیا جہان کے مسلمان جہادیوں کو افغانستان میں اکٹھا کر کے انہیں مجاہدین کا نام اور روس کیخلاف جنگ کو جہاد کا نام دے کر اسے ایک اسلامی جنگ کا روپ دے دیا۔ ہتھیار امریکہ اور امریکی اتحادیوں نے سپلائی کئے اور مجاہدین کو تربیت کا فرض پاکستان کونبھانا پڑا۔ امریکہ کی مدد سے روس کو تو ہم نے شکست دے دی۔ وہ افغانستان سے نکل بھی گیا لیکن اسکے ساتھ ہی امریکہ نے بھی مجاہدین کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا لیکن بعد میں امریکہ انہی مجاہدین کے خلاف خود افغانستان پر چڑھ دوڑا۔
ہماری بد قسمتی کہ افغان جہادی جو اب طالبان کے نام سے جانے جاتے تھے پاکستان میں فاٹا کے علاقے میں آکر آباد ہوگئے۔ یہاں آہستہ آہستہ انہوں نے دہشتگردی کے نیٹ ورک تیار کر لئے۔ اپنا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ،کمیو نیکیشن سسٹم ،زیر زمین بنکرز اور دہشتگردی میں کام آنے والا تمام مواد اکٹھا کر لیا۔ خطرناک ہتھیاروں میں یہ پہلے ہی خود کفیل تھے جو امریکہ نے ان سے واپس ہی نہ لئے ۔ڈالروں کی بھی کمی نہ تھی لہٰذا ان لوگوں نے دہشتگردی کا نشانہ پاکستان کو بنا لیا۔ افغانستان میں روس کے حملے کا دوسرا خمیازہ ہمیں یہ بھگتنا پڑا کہ40 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں آگئے اور انہیںسنبھالنے کی ساری ذمہ داری بھی پاکستان پر ہی آگئی۔پاکستان پہلے ہی ایک غریب ملک ہے۔ ہمارے وسائل اتنے زیادہ نہیں ہیں نہ ہی معاشی حالت قابل رشک ہے اور پھر اتنے زیادہ مہاجرین کا بوجھ۔ بہر حال جیسے تیسے کر کے ہم نے ان مہاجرین کو سنبھالا ۔ورلڈ پاورز جو انسانی حقوق کا شور مچاتی ہیں انہوں نے بھی کوئی امداد نہ کی توحالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔معاشی بوجھ سے زیادہ تکلیف دہ بات ان مہاجرین کا رویہ تھا۔اگر انہیں کسی ایک جگہ پر رکھا جاتا تو شاید حالات اتنے خراب نہ ہوتے لیکن یہ لوگ سارے پاکستان میں پھیل گئے۔یہ لوگ اپنے ساتھ ہیروئن اور سب سے بڑھ کر ہتھیار لے آئے جس سے پورے ملک میں نشے کا کلچر تو پھیلا لیکن ساتھ ہی کلاشنکوف کلچر بھی پھیل گیا۔ چھوٹے بڑے ہتھیار عام ہو گئے۔ ہتھیاروں کی عام فراہمی سے ایک تو یہاں مقامی دہشتگرد تنظیمیں پیدا ہوئیں اور دوسرا غنڈہ اور قانون شکن عناصر کو بھی غیر قانونی مذموم حرکات کرنے کی شہ ملی۔
دہشتگردی نے خودکش دھماکوں، لوٹ مار،ٹارگٹ کلنگ،بھتہ خوری اور گھنائونے قسم کے سٹریٹ کرائمز کو جنم دیا ۔لہٰذا ہمیں ایک ہی محاذ پر نہیں کئی محاذوں پر دہشتگردی کیخلاف جنگ لڑنی پڑی جو ہم افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے لڑ رہے ہیں اور جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے60ہزار جانوں کی قربانی دے چکے ہیں اور تقریباً 86ارب ڈالرز کا انفراسٹرکچر تباہ کراچکے ہیں۔ باقی تباہی اسکے علاوہ ہے۔مختلف روپ میں اس دہشتگردی نے پوری قوم کو نفسیاتی مریض بنا دیا ہے۔
تحریک طالبان بنیادی طور پر افغانستان کی تحریک ہے۔ یہ لوگ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے بارڈر کراس کرکے پاکستانی فاٹا کے علاقے میں سیٹل ہو گئے۔ ہتھیاروں کے عام ہونے سے پاکستانی تحریک طالبان نے بھی جنم لیا۔ پھر انکی دیکھا دیکھی لشکر جھنگوی ، جیش محمد، حرکت التحریر، حرکت الانصار اور جنداللہ جیسی کئی ایک خطرناک تنظیمیں بھی معرض وجود میں آگئیں۔
کچھ اطلاعات کے مطابق پاکستان میں چھوٹی بڑی 40سے زیادہ دہشتگرد تنظیمیں اپریٹ کررہی ہیں اور ان سب کے آپس میں رابطے ہیں۔ فاٹا کو ان لوگوں نے اپنا گڑھ بنا لیا جہاں سے پورے ملک میں دہشتگردی کی کاروائیاں کرتے۔سارے ملک میں اپنے خیر خواہ ، مددگار اور سہولت کار بھی پیدا کر لئے۔کچھ اطلاعات کیمطابق ہمارے کچھ اسلامی مدارس بھی سہولت کاروںکا کردار ادا کر تے رہے ۔ جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تودہشتگردی عروج پر تھی۔ یہاں تک کہ روزانہ کہیں نہ کہیں دہشتگردی کے واقعات رونما ہوتے حتیٰ کہ ہماری ملکی سلامتی بھی دائو پر لگ گئی۔ حکومت نے پر امن طریقے سے مسئلہ حل کرنے کی بہت کوشش کی۔ مذاکرات بھی ہوئے لیکن دہشتگردی بڑھتی ہی گئی کم نہ ہوئی نہ ہی دہشتگرد انکی کوئی شرط ماننے پر تیار ہوئے لہٰذا مجبور ہو کر فوجی اپریشن ضرب عضب شروع کرنا پڑا جس سے تقریباً10 لاکھ لوگ فاٹا سے بے گھر ہوئے۔
فوج نے فاٹا خصوصاً شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں کے مضبوط مورچے،انڈر گرائونڈ بنکرز اور کمیونیکیشن نیٹ ورک تباہ کردئیے۔ ہزاروں کی تعداد میں دہشتگرد پکڑے گئے جن کیخلاف قانونی کارروائی ہورہی ہے لیکن تکلیف دہ بات یہ ہوئی کہ بہت سے دہشتگرد فاٹا سے بھاگ کر افغانستان چلے گئے جہاں وہ ان علاقوں میں آباد ہیں جہاں افغان حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔
ضرب عضب اپریشن سے دہشتگردی کی کاروائیوں میں خاصی کمی آئی ہے لیکن یہ کاروائیاں مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکیں جسکی دو بڑی وجوہات ہیں۔اول یہ کہ اپریشن سے پہلے بھی اور اپریشن کے دوران بھی بہت سے دہشتگرد فاٹا سے بھاگ کر کراچی اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں مقامی آبادیوں میں مل گئے جو وقتاً فوقتاً کاروائیاں کرتے رہتے ہیں ۔پھر ہماری مقامی دہشتگرد تنظیمیں بھی ان کے ساتھ ملی ہوئی ہیں۔
اب داعش کا نام بھی سامنے آرہا ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارا مغربی بارڈر کافی کمزور ہے ۔وہاں پر مکمل کنٹرول ممکن نہیں۔ ہزاروں افغانی روزانہ بارڈر کراس کرکے پاکستان آتے ہیں۔ ویزے کی پابندیاں بھی نہیں۔آرمی پبلک سکول پشاور اور باچا خان یونیورسٹی پر دہشتگردی کی کاروائیاں کرنیوالے افغانستان سے ہی آئے تھے۔ پاکستان اپنی سرزمین پر رہنے والے دہشتگردوں کو تو قابو کر سکتا ہے لیکن غیر ممالک سے آنے والے دہشتگردوں پر قابوپانا مشکل ہے۔ ویسے یہ جنگ اب ایک عالمی جنگ کی صورت اختیار کر چکی ہے اور پاکستان تنہا اسکے سامنے سینہ سپر ہے۔ بے پناہ جانی و مالی قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں۔ پاکستان تنہا یہ جنگ نہیں جیت سکتا ۔دنیا کو چاہیے کہ ہماری کوششوں اور قربانیوں کا اعتراف کرے اور اس جنگ پر قابو پانے کیلئے ہماری مدد کرے۔