’’احتساب سے جمہوریت کا تحفظ‘‘

آئین ِ پاکستان کی رو سے کائنات کا اقتدارِ اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ پاکستان میں یہ اختیار ملک کے عوام اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے سے روبعمل لائینگے۔اسلامی احکامات کیمطابق جمہوریت ، آزادی، مساوات، برداشت اور معاشرتی انصاف کے اصولوں پر عمل پیرا نظام تشکیل دیا جائیگا۔
اس بنیادی نظریے پر کسی ایک ہموطن کو بھی اختلاف نہیں جبکہ عمل میں ہمارے رویّے بالکل مختلف ہیں۔جیسے ہم اپنے مذہب کی ہر ہدایت کو جانتے ہیں اور ان پر مر مٹنے کو تیار بھی رہتے ہیں مگر عمل میں کوسوں دور پائے جاتے ہیں۔اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اچھے قانون کو اچھا سمجھنے اور عمل کرنے والوں کیلئے ان سے اپنوں نے ہی کچھ ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں جن کے سامنے وہ مجبور نظر آتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر ہمیشہ دانشور اپنی قوم کی اجتماعی سوچ کو اجاگر کیا کرتے ہیں جو بالآخر ہر ایسی رکاوٹ کو ہٹانے کے گُر سیکھ لیتے ہیں۔ارسطو نے اڑھائی ہزار سال پہلے کہا تھا ’’میں کسی کو کچھ سکھا نہیں سکتا صرف انہیں سوچنے پر آمادہ کر سکتا ہوں ‘‘۔اُسے تو زہر کا پیالہ ملا مگر اسکی سوچوں کے سلسلے نے دنیا بدل ڈالی۔آج پاکستانیوں کو بھی ایسی اجتماعی سوچ کی ضرورت ہے جو قومی ترقی کے راستے میں کھڑی کی گئی تمام رکاوٹوں کو ہٹانے کا فار مولاتیار کر سکے۔ ہمارے سامنے بین الاقوامی یا اندرونی طور پر سکیورٹی ، معاشرتی ، معاشی یا گڈگورننس کے راستے میں جو بھی رکاوٹیں آتی ہیں ان کے مقابل ہمارے ادارے تو موجود ہیں مگر ایسی غیر متوازن حالت میں ہیں کہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پا رہے۔ یہ ایک نا گذیر تو ازن ہے جو ہمیں صرف اس قومی یکجہتی سے حاصل ہو سکتا ہے جس کی بنیاد آئین میں دیئے گئے جمہوریت ، آزادی، مساوات، برداشت اور معاشرتی انصاف کے اصولو ں پر استوار ہو۔ پہلے اپنی قومی بنیاد کی ان پانچوں اینٹوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔جمہوریت۔ ہم جمہوریت کے تقاضے پورے کرنے سے یکسر قاصر ہیں ۔ روائتی طور پر ہم صرف کسی طرح سے بھی حاصل کردہ ووٹوں سے حکومت بنانے کو جمہوریت سمجھتے ہیں۔پہلے ہماری جمہوریت میں نچلی سطح پر لوکل گورنمنٹ کے ادارے ہی نہیںبننے دئیے جاتے یعنی حکومت میں عوامی شمولیت مفقود رہتی ہے۔ دوسری سطح پر اپوزیشن اور حکومت ’’مفاہمت برائے جمہوریت ‘‘کے نام پر آپس میں ایک ہوجاتے ہیں۔ یعنی کسی حکومتی زیادتی کے خلاف عوام کی آواز غائب کرنے کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ سب سے اوپر والی سطح پر کوئی قومی معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں لایا جاتا۔بحث پارٹی لیڈروں کے درمیان کہیں اور ہوتی ہے اور چند منٹوں میں اسمبلی کا ٹھپہ لگوالیا جاتا ہے۔ یعنی نمائندہ پارلیمنٹ بھی بے اثر ہو چکی۔ان تینوں حقائق کی موجودگی میںعلم ِسیاسیات کے ماہرین کو جمہوریت کی نئی تعریف تلاش کرنا ہوگی۔ ہمارے ہاں ہر کوئی جمہوریت کو اسی طرح انجوائے کرتا ہے جیسے پنجابی جُگنی۔سب کو پتہ ہو تا ہے کہ جگنی کا کوئی وجود نہیں مگر گانے والا اپنی مرضی سے اسکی شکلیں بدلتا رہتا ہے اور سننے والے سالہاسال اس پر جھومتے رہتے ہیں۔
2۔آزادی۔ آزاد شہری ہیں، آزاد عدلیہ ہے ، کام کرنے اور اپنی خوشیاں تلاش کرنے کی بھی آزادی ہے ۔مگرشہری پریشان کیوں ہیں؟کیوں باہمی اعتمادختم ہوتا جا رہا ہے؟شائد آزادی کی شفاف ندیوں میں طاقتوروں نے اپنے جانور نہلانے شروع کر دئیے ہیں اور عوام کو آلودہ پانی ہی قبول کرنا ہے۔ کیسے روکا جائے؟
3۔مساوات۔ برابری کا حق تو ہمیں اللہ نے دیا اور ہادی بر حقؐ نے ہمیں پہنچایا تھا۔مساوات کا اصل مطلب ہر کسی کو احترام آدمیت کے ساتھ صحت، تعلیم اور ترقی کے برابر مواقع فراہم کرنا ہے تو پھر کیوں کچھ انسانوں کے تن پر لباس نہیں ہوتااور کچھ اعلیٰ لباس کے اندر انسان نہیں ہوتے۔
4۔برداشت۔یہ وہ قوت ہے جس سے ہر مذہب، فرقے، گروہ وغیرہ کی شمولیت کیساتھ اجتماعی سوچ اور اجتماعی طاقت ابھرتی ہے۔آجکل ہمارے ہاں عدم برداشت کا رویہّ بڑھ رہا ہے جسکے سبب ہر جگہ جرائم ، تشدد اور انتشار کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔اسکا حل ہمیشہ معاشرے کے پاس ہوتا ہے بشرطیکہ معاشرہ خود مطمئن ہو۔
5۔معاشرتی انصاف۔تمام شہری معاشرے میں ایک باعزت مقام چاہتے ہیں جس کی خاطر وہ تگ ودو کرتے رہتے ہیں۔ریاست ایک سسٹم کے ذریعے انہیں نمایاں مقام حاصل کرنے کیلئے سہولیات بہم پہنچاتی ہے اور یہ بھی یقین کرتی ہے کہ زیادہ اونچا ہونے کے متمنی جنہیں انگریزی میں Social Climberکہتے ہیں دوسروں کے سروں پر سوار نہ ہو پائیں۔ہم نہ صرف سوشل کلائیمبرز کو انکی جائز بلندی تک محدود کرنے کی اجتماعی کوشش کرتے ہیں بلکہ انہیں سالہاسال تک اپنے سروں پر بٹھائے رکھنا مقدر کا فیصلہ سمجھ لیتے ہیں۔
آئین کے تمام بنیادی نقاط کا اپنے حالات کے تناظر میں جائزہ ہمیں ایک ہی مقام پر لاکھڑا کرتا ہے اور وہ یہ کہ اب ہمارے لئے اجتماعی طور پر منصفانہ سوچ اور غیر متزلزل اقدام کے ذریعے اپنے معاشرے اور جمہوریت کو توازن دینا ناگزیر ہوچکا ہے۔اس توازن کے حصول کیلئے ہر فرد یا گروہ کی کارکردگی اور ریاست سے حاصل کی گئی منفعت کی عوام کے سامنے شفافیت انتہائی ضروری ہو گئی ہے۔ اسی سے آزادی ، برابری اور معاشرتی انصاف کا احساس افراد کو قریب لانے، انتشار کو کم کرنے اور جمہوریت کو مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔شفافیت اب صرف احتساب کے ذریعے ہی ممکن ہے جس کی کئی ایک قسمیں ہیں۔عام آدمی کو سبھی گردونواح کے لوگ دیکھتے رہتے ہیں اور وہ حالتِ احتساب میں رہتا ہے۔سرکاری محکموں اور پرائیویٹ اداروں میں ہر درجہ کے ملازم پر اسکا اعلیٰ افسر محتسب ہوتا ہے اور پھر ان سب پر پولیس ، اینٹی کرپشن وغیرہ کے محکمے مصروف کا ر رہتے ہیں۔اس سے اعلیٰ سطح پر محکموںکے سربراہان، بہت سینئر افسران اور سیاستدانوں کیلئے نیب جیسے ادارے موجود ہیں۔بظاہر تو سب ٹھیک ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے۔ہماری ایک کمپرومائزڈ سوسائٹی ہے جس میں کرپشن اوپر سے نیچے کو سفر کرتی ہے ہر سطح پر جہاں تک یہ زہر پہنچتا ہے لوگ اپنی نوکری کو محفوظ جانتے ہوئے کام میں دلچسپی لینا چھوڑ دیتے ہیں جس سے ادارے برباد ہو رہے ہیں۔
آج صورتحال یہ ہے کہ اگر درستگی کیلئے احتساب کی ڈوری ذرا سی بھی ہلائی جائے تو ہر طرف سے آہ وفغاں اور الزامات درالزامات کا شوربرپا ہو جاتاہے۔ ہر شعبے میں ہر درجے پر کمپرومائز کرنیوالے مشترکہ محاذ بنا کر اول تو عمل کو رکوا دیتے ہیں اور اگر روک نہ سکیں تو خراب ضرور کر دیتے ہیں ۔’’پاکستان میں98فیصد لوگ بشمول آرمی کے بے لاگ احتساب چاہتے ہیں جبکہ ریاست کو سو فیصد درکار ہے تو پھر 2فیصد لوگ کب تک روک سکیں گے۔بہتر ہو گا کہ وہ خود ہی راستہ دیدیں‘‘
جب لوگوں نے کئی سال اپنی فوج کو دہشت گردی کی جنگ اور آفات میں اپنا جانثار پایا تو انہوں نے اس معاملے میںبھی فوج سے امید یں باندھ رکھی ہیں۔فوج کے پاس بھی اب پیچھے ہٹنے کیلئے کوئی جگہ نہیں رہی۔آج ایک ہی حل رہ گیا ہے کہ حکمران عوامی طاقت اور فوجی تعاون سے احتساب کے عمل کو تیز کردیں۔ نتیجتاًنچلی سطح پر سوشل احتساب شروع ہو جائیگا جو سوسائٹی کو مربوط کردیگا۔ادارے فعال ہونے لگ جائینگے جس سے نظام حکومت چل پڑیگا۔ انصاف اور قانون کی بالادستی نظر آنے لگ جائیگی تو جرائم بھی کم ہو جائینگے۔ چند سیاستدان اور چند سینئر بیوروکریٹ گرفت میں آئینگے جبکہ اسمبلی میں خاموش بیٹھ کر کڑھنے والے سیاستدان اور کھڈے لائن لگے ایماندار بیوروکریٹ حالات کو سنبھال لیں گے۔اسی سے گڈ گورننس اور عوامی حقوق کا ادا ہونا ممکن ہوگااور مجموعی طور پر ہمیں ایسی جمہوریت نصیب ہو سکے گی جسکا تحفظ احتساب کرے گا جو شائد قانونِ قدرت کے عین مطابق ہو۔

ای پیپر دی نیشن