پاکستان کے حالات دگرگوں اور پریشان کن ہوتے جا رہے ہیں۔ مودی بغیر بتائے پاکستان آئے، ابھی تک بحث جاری ہے۔ وہ یہاں نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کرنے آئے تھے یا بھارت کا کوئی پیغام اوبامہ کے حکم پر سنانے آئے تھے۔بہت سے اینکرز نے طبع آزمائی کی لیکن عقدہ ابھی تک نہیں کھلا۔ پٹھانکوٹ پر حملہ ہوا توپاکستان کو بغیر ثبوت کے موردِ الزام ٹھہرایا گیا لیکن تعجب کی بات ہے کہ اس واقعہ کا پرچہ گوجرانوالہ میں درج کیا گیا۔بھارت سے اچھے تعلقات کیلئے ہماری حکومت سر توڑ کوششیں کر رہی ہے لیکن بھارت کی طرف سے کبھی مثبت جواب نہیں ملا۔ کیاایک ہاتھ سے تالی بج سکتی ہے؟
بد عنوانی ملک کی جڑوں کو کاٹ رہی ہے۔ کیا ہم اس روک تھام کیلئے کوئی اقدام اٹھا رہے ہیں؟ رینجرز نے پولیس سے کراچی میں ملکر کافی حد تک امن قائم کردیا لیکن جب بڑے مگر مچھوں اور پردہ نشینوں کے نام آنے لگے تو قائم علی شاہ چیں بجیں ہوئے ۔
سندھ میں عجیب صورتحال ہے۔ پولیس کی تفتیش میں زرداری صاحب کے دست راست ملزم کو بے گناہ قرار دیا گیا۔ رینجرز کے پراسیکیوٹر نے کورٹ میں اسکو گناہ گار قرار دیا۔ سندھ کے سیاستدانوں قائم علی شاہ ، چانڈیو میمن اور دیگر نے مرکز کیخلاف واویلا کیا۔ رینجرز کو اختیارات نہ دینے کی تجویز پیش کی۔ پھر مرکز نے نا منظور کرتے ہوئے خود اختیارات میں توسیع کا اعلان کردیا۔ بعد میں سندھ حکومت نے بھی بادلِ نخواستہ توسیع دے دی۔ یہ معاملہ چل رہا تھا، سندھ کے حکمران ایک ہی رٹ لگا رہے تھے کہ کیا پنجاب میں کرپشن نہیں۔ پنجاب میں کسی کیخلاف ایکشن کب لیا جائیگا۔ اس پر رانا ثنا اللہ شور مچا رہے تھے کہ سندھ کے سیاستدانوں کے کہنے پر پنجاب میں رینجرز کا ایکشن نہیں ہو سکتا۔ پرویز رشید صاحب واویلاکر رہے تھے کہ پرانے پچیس سال کے دائر مقدمات نہیں کھولے جا سکتے۔شہباز شریف اپنا بھاشن دے رہے تھے کہ میٹرو بس یا ٹرین پراجیکٹ پر انکوائری نہیں ہونے دینگے۔ گویا پرانے کیسز زندہ نہیں کئے جا سکتے اور نئے بھی شروع نہیں ہو سکتے۔ یہ کشمکش چل رہی تھی، سپریم کورٹ نے حکم نامہ جاری کر دیا کہ مارچ میں سب سیاستدانوں کیخلاف پینڈنگ کیسز کی تفتیش مکمل کر کے قانونی کارروائی کی جائے اگرچہ نیب نے پنجاب کی 12اہم شخصیات کے نام صوبائی حکومت اور مرکز کو دیئے کہ انکو نیب کے حوالے کیا جائے تا کہ انکے خلاف تفتیش کر کے انکوائری مکمل کی جائے۔ ان ناموں میں اہم سیاستدانوں اور حکمرانوں اور انکے رشتہ داروں کے نام بھی ہیں۔ ان میں بڑے بڑے بزنس مینوں اور مگر مچھوں کے نام بھی ہیں جن پر میاں نواز شریف کو اعتراض ہے کہ اگر بڑے بڑے بزنس مینوں کیخلاف کارروائی کی جائیگی تو سرمایہ کاری کون کریگا اسلئے نیب کو بڑے مگرمچھوں کیخلاف کارروائی کی اجازت نہیں، چنانچہ سیاست میں ایک بھونچال پیدا ہوا۔
اینکر صاحبان نے حکومت وقت کیخلاف واویلا کیا اور ہر روز مختلف چینل پر پروگرام چل رہے ہیں۔ جہاں مختلف تاویلیں ہو رہی ہیں۔ سیاستدان مارچ کے مہینے کو اہمیت دے رہے ہیں کہ اس میں پاکستان میں کچھ ہونیوالا ہے۔ حکومت کوئی قانون بنانے کا سوچ رہی ہے کہ نیب کے اوپر کوئی اور ادارہ ہو جو اسکی کارکردگی کا جائزہ لے تاکہ نیب جو خود مختار ادارہ ہے اسکی خود مختاری ختم کی جائے۔ اس موضوع پر بحث چل رہی ہے کہ آیا P.P.P تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں حکومت وقت کو ایسا کرنے دینگی! نریندرمودی اور میاں نواز شریف ایٹمی سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کیلئے اگلے ماہ امریکہ جارہے ہیں۔امریکہ کی دونوں میں ملاقات کرانے کی کوشش ہے۔دیکھیں اس ملاقات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
پینٹا گون نے پاکستان کوایف 16طیارے دینے کی منظوری دی ہے۔ جس کیلئے امریکن کانگرس کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔امید یہی ہے کہ پینٹا گون نے منظوری دے دی ہے تو امریکن صدر اوبامہ کانگرس سے منظوری حاصل کر لینگے۔ بھارت ایک طرف پاکستان سے دوستی کا خواہاں ہے دوسری طرف امریکن 16ایف طیاروں پاکستان کو دینے پر بھی معترض ہے۔ امریکہ وہی کہتا ہے جو بھارت کہتا ہے۔ امریکہ کے سیاستدان پاکستان پرڈو مور کیلئے دبائو ڈال رہے ہیں جبکہ پینٹاگون کے جنرل پاکستان کے دہشت گردی کے سلسلہ میں کام کی تعریف کر رہے ہیں ۔
بین الاقوامی حالات بھی سخت دگرگوں ہیں۔ سعودی عرب نے 36ملکوں کے اتحاد میں پاکستان کو بھی شامل کر لیا ہے لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس میں پاکستانی فوج کے ذمہ کام کیا ہے؟ امریکہ کی کوشش رہی ہے کہ سعودی عرب اور ایران کو لڑا کر مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جائے۔ یمن میں پاکستانی فوج نے دخل نہ دیکر عقلمندی کا ثبوت دیامگرکیا اب 36ملکوں کے اتحاد میں شامل ہو کر ایران سعودی عرب کی آپسی جنگ کرانے کے ارادے ہیں؟ ہمارے فارن ایڈوائزر سر تاج عزیز کہہ رہے ہیں کہ پاکستان36ملکوں کے اتحاد میں شامل نہیں، لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں خاموشی اختیار کرنے کوکہاجا رہا ہے۔فاطمی صاحب اسکے الٹ بیان دے رہے ہیں۔ ایک طرف ایران سے تو تجارتی تعلقات استوار کئے جا رہے ہیں جو اچھی بات ہے لیکن ایرانی بجلی اور سوئی گیس جو پاکستانی بارڈر تک موجود ہے اس کیلئے ابھی تک عندیہ نہیں دیا جا رہا۔ ایران کیساتھ اور سعودی عرب کیساتھ تو تعلقات کیسے رکھے جائینگے۔ امریکہ کو اگر خوش کرنا ہے تو آگ اور پانی اکٹھے نہیں ہو سکتے یعنی مسلم امہ کو کبھی امریکہ اور یورپ اکٹھے نہیں ہونے دینگے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے حکمران ذاتی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں یا ملکی مفاد کو۔ بین الاقوامی موجودہ حالات سوچ سوچ کر قدم رکھنا چاہئے۔ بھارت نے آج تک کوئی موقع ضائع نہیں کیا پاکستان دشمنی کا ، ہمارے حکمرانوں کی سوچ مثبت ہے۔ ہمارے ہمسایوں کیساتھ تعلقات اچھے ہوتے جائیں لیکن کیا تالی ایک ہاتھ سے بج سکتی ہے؟ جب دوسری طرف سے کوئی پذیرائی نہ ہو تو پھر سوچنا چاہئے کہ ہماری ملکی پالیسی کیا ہونی چاہئے۔ کچھ لوگ فوج کی طرف نظریں لگائے ہوئے ہیں لیکن فوج موجودہ بین الاقوامی حالات میں مارشل لگانے کی غلطی نہیں کر سکتی۔ فوج کی پاکستان کا لاء اینڈ آرڈر ٹھیک کرنے کی ضرور کوشش ہے، دہشتگردی کو ختم کرنے کی بھی خواہش ہے اور عملی اقدام بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ فوج کی ملکی بقاء کیلئے بھی ذمہ داری ہے۔ کیا کرپشن کا اژدھا پاکستان کو دیمک کی طرح نہیں چاٹ رہا؟ پاکستانی فارن ایکسچینج کس تیزی سے کھربوں روپے باہر بھیج رہی ہے۔ ملک کی اقتصادی صورتحال تباہ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اگر اسی طرح سے ڈالر پاکستان سے باہر جائیگا تو کیا ملک دیوالیہ نہیں ہو جائے گا؟ اگر ہم اسقدر بیرونی قرضے لینگے تو کیا کل تک ادا بھی کر سکیں گے؟؟؟ یہ سب چیزیں بہت اہم ہیں۔ فوج پاکستان کا حصہ ہے۔ ملک کو بچانے کیلئے انہیں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہے اسلئے یہ تو ممکن ہو سکتا ہے متذکرہ بالا اقدام کے سدِباب کیلئے کوئی قدم فوج اٹھائے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں ہو گا …؎
کون سے دیس میں رہتے ہیں وہ مونس جن کی
اور اک بات سناتے تھے فسانے والے
ٹھوکروں میں ہے متاع دل ویراں کب سے
کیا ہوئے غم کو سر آنکھوں پر اٹھانے والے
رات سنسان ہے بے نور ستارے مدھم
کیا ہوئے راہ میں پلکوں کو بچھانے والے
اب تو وہ دن بھی نہیں ہیں کہ میرے نام کیساتھ
آپ کا نام بھی لیتے تھے زمانے والے
خدا کرے پاکستان کو زندہ سلامت رکھے۔