اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے 17 سال بعد لڑکی کو اسکی مرضی کے مطابق والدہ کے حوالے کرتے ہوئے کیس کا فیصلہ کردےا۔عدالت نے اتنا عرصہ کیس کا ٹرائل چلنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے لڑکی کو اپنے حقیقی والد سے ملاقات کرنے کا پابند کرتے ہوئے کہا اگر اس ملاقات میں ماں نے کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی تو شکایت پر اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل لائی جائے گی ،دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بچوں کو والدین کا احترام کرنا چاہیے اسلام میں ان کا بڑا مرتبہ ہے یہ درست ہے کہ والدین کے درمےان طلاق کے بعد کوئی رشتہ نہیں مگر بچی کا دونوں سے حقیقی تعلق موجود ہے جس سے انکار نہیں کےا جاسکتا جب طلاق ہوئی لڑکی تین سال کی تھی اب بالغ ہے اس کی رائے بھی ضروری ہے ۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل دو رکنی بنچ نے مےاں سعید بنام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج خانیول کیس کی سماعت کی تو سائرہ کوثرہ نامی لڑکی کے والد مشتاق حسین کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کےا کہ جب لڑکی تین سال کی تھی تو 1998ءمیں اس کے والدین کے درمےان طلاق ہوگی لڑکی والدہ کے پاس تھی والد نے بیٹی کی واپسی کے لیے کیس کی ٹرائل کورٹ ہائی کورٹ نے بچی کو والد کے حوالے کرنے کا حکم دےا مگر اس کی والدہ نے لڑکی کو نہ دےا اور ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردےا عدالت سے استدعا ہے کہ وہ لڑکی کو باپ مشتاق حسین کے حوالے کرے کیونکہ بچی کی والدہ دوسری شاد ی کرچکی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت بچی کی رائے اور مرضی بھی ضروری ہے عدالت قرآن پاک منگواکر اس پر لڑکی سے حلفی بےان لےا تو لڑکی نے کہا کہ والدہ کے پاس رہنا چاہتی ہے۔
لڑکی/ حوالے