وزیراعظم نوازشریف کا سی پیک سے ناخوش علاقائی طاقتوں کا تذکرہ اور بھارت کا نام لینے سے گریز
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ امریکہ اور مغرب کی طرف سے پاک چین اقتصادی راہداری کی مخالفت یا اسے عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوششوں کا کوئی اشارہ نہیں ملا تاہم بعض علاقائی طاقتیں سی پیک سے ناخوش ہیں جو اسکے ذریعے پاکستان کی ترقی ہوتے نہیں دیکھنا چاہتیں۔ گزشتہ روز ملک واپسی سے پہلے انقرہ میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ چین کے تعاون سے بہت سے منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے جن کے تحت گوادر کو موٹرویز کے ذریعے ملک کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ملایا جارہا ہے‘ اس سے ہمارا وسطی ایشیائی ریاستوں تک رابطہ ہو جائیگا۔ انہوں نے بتایا کہ چین کے تعاون سے گوادر میں ایئرپورٹ بھی تعمیر ہوگا جو کراچی کے بعد ملک کا دوسرا بڑا ایئرپورٹ ہوگا۔ حالیہ خودکش حملوں کے حوالے سے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان حملوں کیلئے افغان سرزمین استعمال ہوئی ہے۔ انکے بقول ہم افغانستان میں ترقی اور استحکام چاہتے ہیں۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر پر بھی جلد قابو پالیا جائیگا کیونکہ ہم دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹنے کے عزم پر کاربند ہیں‘ ہم خطے کو دہشت گردی سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس توقع کا بھی اظہار کیا کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور ہی میں کرایا جائیگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افغان حکومت ہم پر الزامات عائد کرتی رہتی ہے مگر ہم ایسا نہیں کر سکتے‘ ہم افغانستان کی بہتری چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اقتصادی راہداری منصوبہ میں ترکی کی شمولیت کا خیرمقدم کرینگے۔ انکے بقول چند مغربی قوتوں نے بھی سی پیک کے ساتھ منسلک ہونے میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کیلئے ترقی‘ خوشحالی اور استحکام کے دروازے کھلنے والے ہیں جبکہ چین کے تعاون سے شروع ہونیوالا یہ منصوبہ علاقائی ترقی اور استحکام کی بھی ضمانت بنے گا۔ اس تناظر میں سی پیک کی بنیاد پر اقوام عالم میں بھی پاکستان کا نام سربلندہوگا اور اس کا اعتبار بڑھے گا چنانچہ پاکستان کیلئے اس دل خوش کن صورتحال کو بھانپ کر ہی ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت کے سینے پر سانپ لوٹ رہے ہیں اور اس سے خطے میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی اہمیت ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ اس کا ایجنڈا تو پاکستان کو عدم استحکام کا شکار اور اسکی سلامتی کمزور کرنے کا ہے جس پر وہ تقسیم ہند کے وقت سے ہی گامزن ہے۔ اس حوالے سے بھارت کی موجودہ مودی سرکار تو پاکستان کی سلامتی خدانخواستہ ختم کرنے کی بدنیتی رکھتی ہے اور اسے سقوط ڈھاکہ جیسے کسی دوسرے سانحہ کا شکار کرنے کی گھناﺅنی سازشوں میں مصروف ہے جس کا خود نریندر مودی وقتًا فوقتاً اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ وہ تو اپنی سیاسی مخالف کانگرس آئی پر سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کیلئے سقوط ڈھاکہ میں اندراگاندھی کے کردار جیسا کوئی کردار ادا کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھے ہیں اور انکے اقتدار کے اڑھائی سال پاکستان کیخلاف ایسی ہی مذموم سازشوں میں گزرے ہیں۔ مودی سرکار کا امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ فرانس اور روس کے ساتھ ایٹمی‘ دفاعی تعاون اور ہر قسم کے اسلحہ کی خریداری کے معاہدے کرنا پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی اسکی سازشوں ہی کا حصہ ہے اس لئے اسے سی پیک کی بنیاد پر پاکستان کا اقتصادی اور دفاعی طور پر مضبوط ہونا کیسے گوارا ہو سکتا ہے۔
اسکے برعکس خطے کے دوسرے ممالک اور یورپی‘ مغربی دنیا کی جانب سے سی پیک کے ساتھ خود کو منسلک کرنے کے مثبت اشارے مل رہے ہیں جس کا عندیہ وزیراعظم نوازشریف نے گزشتہ روز انقرہ میں پریس کانفرنس کے دوران بھی دیا ہے۔ انکے بقول بعض علاقائی طاقتیں سی پیک سے ناخوش ہیں کیونکہ اسکے ذریعہ وہ پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتیں تو انہیں اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہوگا کہ علاقے کا واحد ملک بھارت ہی سی پیک کے ذریعہ پاکستان کی ترقی کا مخالف ہے چنانچہ اس نے اپنی ایجنسی ”را“ کے ذریعے سی پیک کو سبوتاژ کرنے کا سازشی منصوبہ بنایا اور چین کو سی پیک سے ہٹانے کیلئے نریندر مودی خود بیجنگ جا پہنچے اور سی پیک پر بھارتی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے چین کے صدر اور وزیراعظم کو سی پیک سے الگ ہونے کیلئے قائل کرنے کی کوشش کی جس پر چینی قیادت کی جانب سے انہیں دوٹوک جواب ملا کہ یہ خطے کے دوممالک پاکستان اور چین کا آپس کا معاملہ ہے جس سے بھارت کا کوئی لینا دینا نہیں۔ اسکے باوجود بھارت نے چین کو سی پیک اور پاکستان سے برگشتہ کرنے کی سازشیں ترک نہیں کیں اور گزشتہ ہفتے بھارت کے سیکرٹری خارجہ جے شنکر کو بیجنگ بھجوا کر مودی سرکار نے چین کو سی پیک کیخلاف پھر رام کرنے کی کوشش کی جس میں اسے پھر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
بھارت نے چین کی جانب سے ناکام ہونے کے بعد سی پیک کو دہشت گردی کے ذریعے سبوتاژ کرنے کا گھناﺅنا منصوبہ بنایا جس کیلئے بلوچستان میں بھارتی ”را“ کا نیٹ ورک پھیلایا گیا اور اس میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو اور اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن میں سفارتکاروں کے بھیس میں تعینات بھارتی جاسوسوں کو متحرک کیا گیا۔ کلبھوشن نے اپنی حراست کے بعد اس بھارتی سازشی منصوبے کو خود بے نقاب کیا۔ اسکے ساتھ ساتھ بھارت نے چاہ بہار پورٹ کو اپریشنل کرنے کا چکمہ دے کر ایران اور افغانستان کو سی پیک سے توڑنے کی بھی سازش کی تاہم ایران کو اس بھارتی سازش کا ادراک ہوا تو اس نے چاہ بہار پورٹ کے ہوتے ہوئے بھی خود کو سی پیک کے ساتھ منسلک کرنے کی خواہش کا اظہار کردیا تاہم کابل انتظامیہ ابھی تک مودی سرکار کے ٹریپ سے باہر نہیں نکل سکی اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں میں بھارت کی آلہ¿ کار بنی ہوئی ہے۔ بھارت کو اسی بنیاد پر پاکستان کیخلاف افغان سرزمین استعمال کرنے کی سہولت ملی ہے جہاں سے وہ اپنے دہشت گردوں کو تربیت اور اسلحہ دے کر اور انکی فنڈنگ کرکے پاکستان بھجواتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ہونیوالی دہشت گردی کی گھناﺅنی وارداتوں میں افغانستان سے آئے دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت اور شواہد بھی مل چکے ہیں جس کی بنیاد پر ہماری سکیورٹی فورسز کو دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے اور انکی سرکوبی کیلئے افغانستان کے اندر جا کر اپریشن کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
کیا وزیراعظم نوازشریف کو افغانستان کے ایماءپر کی گئی ان ساری بھارتی سازشوں کا اب تک مکمل ادراک نہیں ہوا؟ انہیں یقیناً اس حقیقت سے مکمل آگاہی حاصل ہے مگر سی پیک سے ناخوش علاقائی طاقتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں کھل کر بھارت کا نام لینے کی توفیق نہیں ہوئی حالانکہ ان بھارتی سازشوں سے پوری اقوام عالم بخوبی آگاہ ہیں۔ اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال اور کیا ہوسکتی ہے کہ بھارت ہماری سلامتی کمزور کرنے اور سی پیک کو سبوتاژ کرنے کے سازشی منصوبوں میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا اور اسکے تربیت یافتہ دہشت گرد گزشتہ دو ہفتے کے دوران اپنی دہشت گردی اور خودکش حملوں کی گھناﺅنی وارداتوں کے ذریعے پورے ملک میں عدم تحفظ کی فضا پیدا کرچکے ہیں جس پر مودی سرکار کی باچھیں کھل رہی ہیں اور وہ اسرائیل سے مل کر مزید 200 میزائل تیار کرنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہے جو لامحالہ وہ پاکستان کی سلامتی کیخلاف استعمال کرنے کی بدنیتی رکھتا ہے مگر پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے وارث ہونے کے داعی وزیراعظم نوازشریف آج بھی بھارت کے ساتھ دوستی اور تجارت کے خواہاں ہیں اور انقرہ میں ترکی کی قیادتوں سے ملاقاتوں کے دوران انہوں نے اپنے اس دعوے کا اعادہ کرنا بھی ضروری سمجھا کہ انہیں تو گزشتہ انتخابات میں قومی مینڈیٹ ہی بھارت سے دوستی اور تجارت بڑھانے کیلئے ملا ہے۔ انکے اس موقف کو قوم پہلے بھی مسترد کرچکی ہے اور اس موقف کے ساتھ وہ آئندہ انتخابات کیلئے قوم کے پاس جائینگے تو انہیں قوم کے ردعمل سے بخوبی اندازہ ہوجائیگا کہ قوم وطن عزیز کی کمزوری کا تاثر دینے والے انکے اس موقف کو کس نگاہ سے دیکھتی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سی پیک کو اپریشنل کرنے اور اسکے ذریعے پاکستان کی ترقی و استحکام کا خواب شرمندہ تعبیر کرنے کیلئے ہماری سول اور عسکری قیادتوں کو اس کیخلاف بھارتی سازشوں کا فوری اور ٹھوس جواب دینا ہوگا۔ اگر وزیراعظم بھارتی سازشوں اور کنٹرول لائن پر ہونیوالی اسکی جارحیت کا جواب اسکے ساتھ دوستی اور تجارت بڑھانے کی خواہش کا اظہار کرکے دے رہے ہیں تو ملک کی ہزیمتوں کا اس سے زیادہ اور کیا اہتمام ہو سکتا ہے۔ اگر وزیراعظم نے بھارت کے معاملہ میں اپنی سوچ تبدیل نہ کی تو قوم آئندہ انتخابات میں خود ان سے نمٹ لے گی۔ قوم ملک کی سلامتی اور قومی مفادات پر بہرصورت کسی کو مفاہمت کی ہرگز اجازت نہیں دیگی۔