ردِالفساد....شمعِ فروزاں یا بتی ؟

جنرل راحیل شریف نے آپریشن ضرب عضب شروع کر کے اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کی پوری کوشش کی مگر اپریشن ضرب عضب ہنوز جاری اور منطقی انجام سے دور ہے۔ جنرل راحیل شریف کرپشن اور دہشتگردی کے کٹھ جوڑ کی نشاندہی کرتے ہوئے بار بار اس گٹھ جوڑ کو توڑنے کا عزم و ارادہ ظاہر کرتے رہے۔ انکی مدت ملازمت ختم ہو گئی، دہشتگردوں اور دہشتگردی کے سامنے پاک فوج ایک دیوار ضرور بنی مگر کرپشن کے خاتمہ کیلئے کوئی خاص کاوش نظر نہیں آئی۔ جنرل راحیل شریف کی شخصیت کے بارے میں عمومی تاثر یہ تھا کہ وہ جو کہتے ہیں کر گزرتے ہیں مگر کرپشن کے خاتمے کے دعوے، سیاستدانوں کے وعدوں کی طرح ہی ثابت ہوئے۔ جنرل راحیل شریف اپنے دلیرانہ فیصلوں ،جرا¿ت مندانہ اقدامات، معاملات پر سخت گرفت، حالات پر کڑی نظر اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے کے باعث عوامی آرمی چیف بن گئے تھے۔ اتنی کسی فوجی سر براہ کو عوامی پذیرائی نہیں ملی۔ انکی اچھی شہرت اور عوام کے دلوں میں محبت واحترام اب بھی بر قرار ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے دعوے پورے اور وعدے ایفانہ کرنے پر لوگ مایوس ضرور ہوئے مگر انکی تعداد عوامی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سے مایوس ہونےوالوں سے کہیں کم ہے جو اپنے جرا¿ت مندانہ فیصلوں کی وجہ سے شہرت اور عوام کے دلوں میں مقام رکھتے تھے جس میں کمی انکی طرف سے چہرے دیکھ کر فیصلے کرنے سے آئی۔
جنرل راحیل شریف کرپشن کےخلاف اس حد تک کیوں نہ گئے جس حد تک جانے کی انہوں نے امید دلائی تھی؟ اس راز سے پردہ جنرل(ر) امجد شعیب نے یہ کہہ کر اٹھایا ہے کہ”مجھے یاد ہے ، سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بہت عرصہ کرپشن کے بارے بات کرتے رہے جس پر ہم نے انہیں اس پر بات کرنے سے منع کیا کیونکہ اس سے سول ملٹری ریلیشن شپ خراب ہورہے تھے، اس سے بہت برا اثر پڑ رہا تھا“۔ جنرل امجد شعیب 39ملکی فوجی اتحاد کی سر براہی کے حوالے سے ن لیگ حکومت کی پھیلائی کنفیوژن اور جنرل راحیل شریف کے بارے میں کردار کشی مہم میں انکے ترجمان اور فرنٹ مین کے طور پر میڈیا میں وضاحیتیں کرتے رہے ہیں جس سے دونوں میں قربت کا اظہار ہوتا ہے۔ جنرل امجد جیسے لوگوں نے جنرل راحیل شریف کو کرپشن جیسے ناسور کےخلاف ایکشن لینے سے منع کر کے فوج کےلئے مستقبل کی مہم جوئی کے دروازے کھلے رہنے دیئے ہیں۔ جنرل راحیل شریف سیاست سے دوررہ کر کرپشن کے خاتمے کےلئے بہت کچھ کر سکتے تھے جیسا سندھ میں کسی حد تک کیا، سندھ کابینہ کے کئی ارکان فرار ہو گئے، ڈاکٹر عاصم ابھی تک نرغے میں ہیں۔ یہی کچھ پورے ملک میں کرپٹ مافیا کے ساتھ ہونا تھا۔ جنرل راحیل کرپشن کے خاتمے کیلئے اپنے عزم و ارادے پر کاربند رہتے، جنرل امجد شعیب جیسے دوستوں کی سوچ کے یرغمالی نہ بنتے تو پانامہ کیس کا سپریم کورٹ میں ماتم ہوتانہ قوم فیصلے کے انتظار کی سولی پر لٹکے ہوتے۔ سوئس بنکوں میں پڑے 2سو ارب ڈالر پاکستان نہ بھی آتے تو روزانہ کی دس ارب روپے کی کرپشن رُک جاتی، وفاقی اور صوبوں کے 80فیصد وزرا اور مشیر جیلوں میں ہوتے یا راہ فرار اختیار کر کے بیرونِ ملک جا چکے ہوتے۔
اسحق ڈار نے فرمایا، دہشتگردی پر قابو پا لیا تو17ویں بڑی معیشت بن جائینگے۔ دہشتگردی پر قابو پانے سے معیشت جتنی مضبوط ہو گی کرپشن کا بھوت یونہی دندناتا رہا تو معیشت کو کرپشن کا جِن کمزور اور خوبرو پری کی طرح لے اڑتا رہے گا۔ کرپشن بھی دہشتگردی سے کم خطر ناک نہیں ہے جس پر ایف بی آر ، ایف آئی اے، سٹیٹ بینک اور نیب معروضی حالات میں قابو نہیں پا سکتے،یہ ادارے حکمران ایلیٹ کی باندی کا کردار اداکررہے ہیں،کیونکہ انکے سربراہوں کی تعیناتی ٹھوک بجا کے کی گئی ہے۔ کس طنطنے کیساتھ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے سپریم کورٹ کو پانامہ کیس میں اختیارات باور کرائے۔ سپریم کورٹ نے پوچھا کچھ، چیئر مین نیب کہتے کچھ اور تھے۔ سپریم کورٹ کو کہنا پڑا نیب وزیراعظم کی انشورنس پالیسی تھا، ہم نے نیب کو دفنا دیا،کوئی تعاون نہیں کررہا،الزامات کو کہاں پھینکیں۔۔۔ پانامہ کیس مکمل ہوچکا اس کا فیصلہ تحریر ہورہاہے۔اس کیس سے ٹریلین ڈالر کی کرپشن وابستہ ہے،ایک شخصیت کو تحفظ دینے کیلئے کچھ حلقے پورازورلگا رہے ہیں۔ کرپشن کا خاتمہ ضروری ہونا چاہئے مگر کیسے ہو؟ فوج کی طرف نہ دیکھیں، یہ فوج کا نہیں، عدلیہ کا کام ہے۔ عدلیہ سے قوم نے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں ، دیکھیں جج حضرات کہاں تک حکومتی دباﺅ وزیروں کی دھمکیوں اور سیاپا برگیڈ کی تڑیوں کو مسترد کرتے ہیں۔ دہشتگردی اور کرپشن ایک دوسرے سے بڑھ کر ناسور اور عفریت ہیں۔ ان کا گٹھ جوڑ ہے یا نہیں، دونوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ حکومت دہشتگردی کا خاتمہ چاہتی ہے مگر کرپشن کے خاتمے بارے محض لفاظی کی جاتی ہے۔ یوں تو پیپلز پارٹی بھی کرپشن کیخلاف مہم چلا رہی ہے۔۔ ہے نہیں یہ طرفہ تماشہ! خادم پنجاب فرماتے ہیں ماضی کے حکمرانوں نے تجوریاں بھر لیں، مسلم لیگ ن نے لوٹ مار کا کلچر ختم کر دیا،اس بیان پر زور دار قہقہہ لگایا جا سکتا ہے یاسر پیٹا جا سکتا ہے۔
دہشتگردی کے خاتمے کےلئے فوج ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ اپریشن رد الفسا د شروع کرچکی ہے۔اگر اس اپریشن کے مقاصد حاصل کر لئے جاتے ہیں تو یہ اپریشن یقیناً مینارہ نوراور شمعِ فروزاں ثابت ہو گا۔ گو جنرل قمر جاوید باجوہ نے اب تک دہشتگردی اور کرپشن کو باہم منسلک نہیں کیا۔ انکی اب تک ترجیح دہشتگردی کا خاتمہ ہی ہے اس میں وہ تین سال کیا تین ماہ میں سرخرو ہو سکتے ہیں بشرطیکہ مصلحتوں اور دباﺅ کو خاطر میں نہ لائیں۔ ایکشن پلان بن چکا ہے اسکی ایک ایک شق پر عمل کرائیں۔ دہشتگردوں کے سپورٹر اور سرپرست اگر حکومت کا حصہ بنے رہیں گے تو دہشتگردوں کیخلاف لڑتے ہوئے مارے جانے والوں کو شہید ماننے سے انکار اور کتوں کو بھی شہید قرار دینے والی ذہنیت بروئے عمل رہے گی تو ضرب عضب کے ساتھ ساتھ شروع ہونیوالا ردالفساد اپریشن ٹرک کی بتی ثابت ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن