میرے ایک دوست کا بیٹا ڈاکٹر بنا تو میں نے انہیںمبارک باد دی اور کہا کہ ملک صاحب یہ تو آپ کی بہت بڑی نیکی ہے کہ اسے ڈاکٹر بنا کر عوام کی خدمت کرنے پر لگا دیا ، ورنہ پاکستان کے آلودہ اور کرپٹ ماحول میں ہمارے بچوں کا کیا مستقبل ہے؟ ایک سال گزرنے کی دیر تھی کہ مجھے موبائل پر انہی ’’ملک صاحب‘‘ کا پیغام موصول ہوا کہ ’’ماشاء اللہ العظیم میرے بیٹے ڈاکٹر علی نے پی سی ایس کا امتحان پاس کر لیا ہے‘‘ یہ میسج پڑھ کر میں حیران ہوا اور سکتے میں آگیا کہ ڈاکٹری کا شعبہ چھوڑ کر موصوف کو کیا کہ بیٹے کو بیوروکریسی کی طرف بھیج دیں۔ یہ میرے لیے تجسس کا مقام تھا، دماغ سوالات کا مجموعہ بن چکا تھا۔ ذہن الجھن کا شکار، سوال زیادہ جبکہ جواب کم۔ ایک مقدس پیشے کے ساتھ وابستہ ڈاکٹر جسے مسیحا کا درجہ مل چکا ہے وہ اپنا پیشہ ترک کر کے ایک مختلف پیشے کا انتخاب کیوں کر لیتا ہے جس کی اے بی سی کا اسے پتہ نہیں۔ پھر بات سمجھ میں آئی کہ ایک بیوروکریٹ کو پروٹوکول دینے کے لیے ریاست انہیں بڑی بڑی گاڑیاں فراہم کرتی ہے۔ ان کے پاس محافظوں کا ایک دستہ ہوتا ہے جن پر حکومت سالانہ لاکھوں روپے خرچ کرتی ہے۔ رہائش کے لیے عالی شان بنگلے، نوکر چاکر وغیرہ۔ جب کہ ڈاکٹر کو ماہانہ اتنی تنخواہ ملتی ہے کہ وہ اپنے موٹرسائیکل کا فیول برداشت کر سکے۔ ڈاکٹر اپنا کھانا خود بناتا ہے یا اس کی صالح بیوی یہ کام سرانجام دیتی ہے۔
پھر میں نے اپنے ارد گرد نظر دوڑائی تو مجھے بہت سے ایسی شخصیات نظرکے سامنے سے گزریں کہ جنہوں نے ’’مسیحا‘‘ بننے کے بجائے بیوروکریٹ بننے کو ترجیح دی ان میں ڈاکٹر شکر اللہ بلوچ، ڈاکٹر طفیل بلوچ، ڈاکٹر حامد بلوچ، ڈاکٹر ظفراللہ، ڈاکٹر ندیم رحمانی ان کے علاوہ اور بھی بے شمار نام ہیں جن پر ڈاکٹری کا لیبل لگنے کے بجائے بیوروکریسی کا لیبل لگ چکا ہے۔ خیر اب ہم آتے اصل بات کی طرف کہ حال ہی میں ایل ڈی اے کے ایک سابق ڈائریکٹر جنرل احد چیمہ کی گرفتاری کے بعد پنجاب کی بیوروکریسی کے ایک گروپ نے دفتروں کو تالے لگا کر ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔ کیا ان افسران کا طرز عمل مناسب ہے؟ کیا اس طرح کا احتجاج کار سرکار میں مداخلت نہیں؟ چیف سیکرٹری پنجاب کو نوٹس لینا چاہئے۔ جواب طلبی کرنی چاہئے اور اگر مطمئن نہ ہوں تو ایف آئی آر درج کرنی چاہیے۔
یہ احتجاج ثابت کرتا ہے کہ پنجاب کی افسر شاہی پوری طرح سیاست میں ملوث ہوچکی ہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بیوروکریسی کو سیاست میں حصہ لینے کی سختی سے ممانعت کی تھی اور اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ ہر صورت غیر جانبدار اور آئین اور قانون کے دائرہ کار میں رہ کر اپنے فرائض منصبی انجام دیں گے۔
اگر اس روایت کی حوصلہ افزائی کی گئی تو کل کسی پولیس افسر کی گرفتاری پر کیا ساری پولیس فورس ہڑتال کرے گی۔ اگر پنجاب کی بیوروکریسی یہ سمجھتی ہے کہ موصوف کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو پھر انہیںان کے حق میں ثبوت اور شواہد نیب اور عدالت کے سپرد کرنے چاہئیں۔ اگر قانون کے رکھوالے ہی غیر قانونی اقدامات کریں گے تو باقی معاشرے کا کیا ہو گا اور اگر پنجاب کے بجائے کسی اور چھوٹے صوبے کی افسر شاہی ایسا احتجاج کرتی تو کیا ہمارا میڈیا آسمان سر پر نہ اٹھا لیتا اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف معمولی واقعات پر بھی نوٹس لے لیتے ہیں وہ اس واقعے پر خاموش کیوں ہیں؟
حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ پنجاب بیورو کریسی کے ایک گروپ کو غلط فہمی ہے کہ وہ بہت قابل ہیں اور پاکستان کو درحقیقت وہ چلا رہے ہیں۔ جو کچھ یہ کر رہے ہیں اس کو اگر چلانا کہتے ہیں تو یہ کوئی فخر کی بات نہیں شرمندگی کی بات ہے۔ پاکستان کے سارے تباہ حال اداروں کے پیچھے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی بابو کا ہاتھ ضرور ہو گا۔ ان کی پرفارمنس تو آپ سب جانتے ہیں اور بین الاقوامی سروے بھی اس پر روشنی ڈالتے رہے ہیں۔ اس گروپ کی سفید بھیڑوں کی کرپشن کی داستانیں بھی کانوں کو ہاتھ لگانے والی ہیں۔
حقیقت میں ہماری بیوروکریسی اچھی طرح جانتی ہے کہ ہمارے سیاست دان لالچی ہوتے ہیں اور اُنہیں اپنے دام میں پھانسنا کوئی مشکل کام نہیں اور یوں سیاست دانوں کی لالچ اور حرص کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیورو کریسی اُنہیں آرام سے استعمال کرلیتی ہے اور جب تمام مقاصد حاصل کرلیئے جاتے ہیں تو اُنہیں چلتا کردیا جاتا ہے اور بیوروکریسی وہیں کی وہیں موجود رہتی ہے، میرے خیال میں سیاست دان اگر صحیح معنوں میں مخلص ہو جائیں اور سیاست کو عبادت سمجھ کر عوام کی خدمت کے جذبے سے کام کریں تو انہیں کوئی بیوروکریٹ استعمال نہیں کر سکے گا اور یہ بات نوٹ کر لیں کہ جس دن بیوروکریسی درست ہوگئی تو پاکستان دنیا کے نقشے پر مثالی ملک بن سکتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس سرزمین کو وسائل سے مالا مال بنایا ہے۔ قطر، سنگا پور، فن لینڈ، ہانگ کانگ، ملائشیا، نیوزی لینڈ اور یو اے ای کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں کی بیوروکریسی کی بدولت ملک دنیا کے نقشے پر اُبھرتے نظر آئے۔
حال ہی میں وزیر اعلی شہباز شریف نے صوبہ پنجاب میں صاف پانی کی فراہمی کی ذمہ دار کمپنی کے اعلیٰ حکام کو نااہلی اور اہداف پورے نہ کرنے پر معطل کیا ہے۔ کمپنی کے سربراہ جن کے پاس سینکڑوں ارب روپے کے منصوبے بنانے کا اختیار تھا، ان کی تعلیم نہ تو انجیئرنگ تھی، نہ ہی پانی سے متعلقہ کوئی تجربہ تھا۔ بس ایک ہوشیار بیوروکریٹس ضرور تھے۔ پچھلے آٹھ سالوں میں پنجاب میں ایسی درجنوں کمپنیاں قائم کردی گئی ہیں جو کوڑا کرکٹ کی تلفی، پارکنگ اور دیگر شعبوں کی ترقی کی ذمہ دار ہیں مگر ان کے ہاتھوں ابھی تک کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں پا سکا۔ ملک کا کھربوں روپے لوٹ کر باہر بھیجنے والے سیاستدانوں کو اسی بیوروکریسی نے کرپشن کے طریقے بتائے اور ان کی راہیں ہموار کیں۔ کیا وجہ ہے کہ سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کی بنائی ہوئی عمارت 5 سال کام نہیں دیتی؟ جبکہ انگریز وں نے 200 سال پہلے جو عمارتیں بنائیں وہ ٹھیک ٹھاک حالت میں ہیں جن عمارتوں کا انتظام سول انتظامیہ کے حوالے کیا گیا وہ کھنڈرات میں تبدیل ہو گئے ایسا کیوں ہوا؟ کچھ لوگ کہتے ہیں فوج کے پاس پیسہ ہے، فنڈ ہے وسائل ہیں مگر یہ سچائی نہیں سچائی یہ ہے کہ فوج کے پاس سلیقہ ہے، انتظام ہے، نظم و نسق ہے سول انتظامیہ کے پاس ان تینوں چیزوں کی کمی ہے۔ فنڈزاور پیسہ بہت ہے اس کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں ہے بقول شاعر ؎
وہی دیرینہ بیماری وہی نا محکمی دل کی
علاج اس کا وہی آبِ نشا ط انگیز ہے ساقی
ایک رپورٹ کے مطابق ساٹھ سے زیادہ پنجاب کے بیوروکریٹس اس وقت نیب کے تحت مختلف کیسوں میں ملوث ہیں اور انکوائریاں جاری ہیں۔ احد چیمہ کے خلاف واضح اور ٹھوس شواہد کے ملنے پر اس کی گرفتاری کا حکم کوئی بہت بڑا سنگین معاملہ نہیں ہے کیونکہ جن پراجیکٹس اور الزامات کی بنیاد پر اسے گرفتار کیا گیا ہے ان کا تعلق بلاشبہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملتا ہوگا۔ مگر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس جیسے قابل اور ذہین آفیسر کو اس کرپشن میں ملوث کس نے کیا؟ لالچ اور طمع ہماری زندگی کا ایک افسوسناک المیہ ہے جس کی لپیٹ میں پورا معاشرہ ہے۔ یہ نوجوان بیوروکریٹس جو عموماً بہت عام اور متوسط بیک گراؤنڈ سے اٹھتے ہیں اور اقتدار اور طاقت کے ایوانوں میں پہنچ کر کرپشن کی چکاچوند سے متاثر ہو کر جب حکمرانوں کی پشت پناہی سے اس دلدل میں دھکیل دیئے جاتے ہیں تو اس کا ایک بہت بڑا حصہ یہ مافیا ہے جو ان کے کردار بنانے کی بجائے ان کو اپنے ساتھ منسلک کر لیتے ہیں۔ نیب یا عدلیہ جب کریک ڈاؤن شروع کرتی ہے تو اس کی لپیٹ میں بڑے مگرمچھ تو کم ہی آتے ہیں مگر یہ چھوٹی مچھلیاں فوری طور پر ان کے نرغے میں آ جاتی ہیں۔ میں کسی بھی صورت میں کرپشن کے اس سمندر اور اس سے وابستہ افراد کی طرفداری نہیں کر رہا، مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ ان افراد کو گرفت میں لینے سے پہلے ان کے پیچھے چھپے ہوئے ڈانز کو گرفت میں لیا جائے اور ان سہولت کاروں کو بھی گرفتار کیا جائے جو نہ تو حکومت میں ہیں اور نہ سیاستدان، ان کا کام محض ’’ڈیلیں‘‘ پکی کرانا ہوتا ہے۔ ہمیں اس ٹرائیکے کو توڑنے کی ضرورت ہے ورنہ پاکستان اپنی شناخت بھی کھو دے گا!