اسلام آباد، لاہور (وقائع نگار+وقائع نگار خصوصی+نیوز ایجنسیاں +نوائے وقت رپورٹ) اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہائی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ عدالت عالیہ کے ڈویژن بنچ نے کہا ہے کہ ڈاکٹرز کی رپورٹ کے مطابق نواز شریف کو بہترین طبی سہولیات دی جا رہی ہیں ، میڈیکل رپورٹس کے مطابق ان کی جان کو خطرات لاحق نہیں ہیں ، یہ کیس غیر معمولی حالات یا انتہائی مشکل صورتحال کے زمرے میں نہیں آتا اس لئے نواز شریف طبی بنیادوں پر ضمانت کے مستحق نہیں ہیں۔ پیر کو عدالت عالیہ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویثرن بنچ نے مختصر فیصلہ سنایا۔ اس موقع پر شاہد خاقان عباسی ، خواجہ آصف ، مریم اورنگزیب اور طلال چوہدری سمیت مسلم لیگ ن کے کارکنان بھی موجود تھے۔فیصلہ سنائے جانے کے بعدکمرہ عدالت میں لیگی خواتین ، آبدیدہ ہوگئیں، بعد ازاں عدالت کی جانب سے 9 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیا جو جسٹس عامر فاروق نے تحریر کیا ہے۔ تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے PLD 2005 SC 364 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جب کسی قیدی کو ہسپتال یا جیل میں طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہوں تو وہ ضمانت کا حقدار نہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نواز شریف نے جنوری 2019ءسے جب بھی ناسازی طبع کی شکایت کی انہیں ہسپتال میں لے جایا گیا ، ڈاکٹرز کے بورڈ اور مختلف ٹیموں کی رپورٹس کے مطابق نواز شریف کو بہترین طبی سہولیات دی جا رہی ہیں۔ ایسی صورت میں یہ غیر معمولی حالات یا انتہائی مشکل صورتحال کا کیس نہیں بنتا۔ جب کسی قیدی کو علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہوں تو طبی وجوہات پر ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیب آرڈیننس 1999 کی دفعہ 9-B کے تحت ضابطہ فوجداری کی دفعات 426 ، 497 ، 498 اور 561-A کی شقوں کو نکال دیا جائے تو ماسوائے غیر معمولی حالات اور انتہائی مشکل صورتحال کے ، کسی بھی زیر التوا مقدمہ کے قیدی کو ضمانت پر رہا کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی سزا یافتہ قیدی کی سزا معطل کر کے اسے ضمانت پر رہائی دی جا سکتی ہے۔ فیصلے میں پاکستان پرزنر رولز 1978ئ کے رول 143 کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس کے تحت سپرنٹنڈنٹ جیل کسی بھی قیدی کے انتہائی مہلک مرض یا شدید بیماری کی صورت میں معاملہ متعلقہ عدالت کو بھجواتا ہے جب (a) قید میں رہنے کی صورت میں مرض شدت اختیار کرنے کا خدشہ ہو ، (b) قیدی کو رہا کرنے کی صورت میں صحت یابی کا قوی امکان ہو ، (c) قید کے دوران قیدی نے کوئی ایسا قدم نہ اٹھایا ہو جس سے مرض کی شدت میں اضافہ ہوا ہو ، (d) ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے میڈیکل آفیسر اور میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی طرف سے رہائی کی سفارش کی گئی ہو اور (e) سزا کی معیاد میں چھ ماہ سے زیادہ عرصہ باقی نہ ہو۔ فیصلے میں پاکستان پرزنر رولز 1978ئ کے رول 164 کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس کے تحت سپرنٹنڈنٹ اس وقت کسی قیدی کو قبل از وقت رہا کرنے کی سفارش کر سکتا ہے جب وہ ضعیف العمر ہو یا بیماری کے باعث دوبارہ اس جرم کا ارتکاب کرنے کے قابل نہ ہو جس میں وہ سزا یافتہ ہو۔ اسی صورت میں معاملہ آئی جی کے ذریعے حکومت کو بھیجا جاتا ہے جس کے ساتھ میڈیکل آفیسر کی سفارشات کا ہونا بھی لازم ہے۔ آئی جی ایسے تمام معاملات میں ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کے تشکیل کردہ میڈیکل بورڈ کی رائے لینے کا پابند ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ متذکرہ بالا رولز کے تحت سپرنٹنڈنٹ جیل کو کسی بھی انتہائی بیمار قیدی کو رہا کرنے کا اختیار حاصل ہے اس لئے پاکستان پرزنر رولز 1978ءکے رول 143 اور 164 کا اطلاق موجودہ کیس پر نہیں ہوتا تاہم پاکستان پرزنر رولز 1978 کے رول 197 کے تحت ضرورت پڑنے پر کسی بھی قیدی کو علاج کے لئے جیل سے باہر ہسپتال منتقل کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ کیس میں اس قانون پر عملدرآمد کیا گیا اور نواز شریف کو جب بھی تکلیف محسوس ہوئی انہیں ہسپتال لے جایا گیا لہٰذا ان کی طرف سے علاج کے لئے ضمانت کی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018ءکو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سات سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جس پر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ نواز شریف لاہور کے ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سنائی گئی سزا کو کالعدم قرار دینے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے اور اپیل کے فیصلے تک سزا معطلی و ضمانت پر رہائی کی درخواست بھی دائر کی جو بعد ازاں واپس لے لی گئی اور طبی بنیادوں پر ضمانت پر رہائی کی نئی درخواست دائر کی گئی۔ 20 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی سزا معطلی و ضمانت پر رہائی کی درخواست کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ فیصلہ سننے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے لیگی رہنما شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف نے کہا کہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں ، مایوسی ہوئی ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل میں جائیں گے ، مزید قانونی راستوں کو اپنایا جائے گا ، جیل کے ماحول میں نواز شریف کا علاج ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا نواز شریف کی علاج کی درخواست قبول نہیں کی گئی ، ہمیں امید تھی کہ عدالت درخواست ضمانت قبول کر لے گی ، قانونی راستے اختیار کرنا ہمارا حق ہے۔دوسری طرف سابق وزیر اعظم و مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف کو سخت سکیورٹی میں جناح ہسپتال سے دوبارہ کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا ،ہسپتال سے روانگی کے موقع پر انکی بیٹی مریم نواز آبدیدہ ہو گئیں ،لیگی کارکنوں کی جانب سے گاڑی کے سامنے بھرپور نعرے بازی کی گئی۔ نوازشریف کو 11 روز تک جناح ہسپتال میں رکھا گیا ،گزشتہ روز بھی میڈیکل بورڈ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کر کے اینجیو گرافی کرانے کی تجویز دی تاہم نواز شریف نے انکار کرتے ہوئے واپس جیل جانے پر اصرار کیا ۔ جس پر میڈیکل بورڈ نے نواز شریف کے فیصلے سے متعلق محکمہ داخلہ کو آگاہ کیا ۔ محکمہ داخلہ کی منظوری کے بعد نواز شریف کو جیل روانہ کر دیا گیا ان کی بیٹی انکے ہمراہ تھیں جو آبدیدہ نظر آئیں اور اپنے آنسو نہ روک سکیں ۔ ہسپتال میں لیگی کارکنوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود تھی جو بھرپور انداز میں نعرے بازی کرتی رہی ،مزید برآں مسلم لیگ ( ن) کے پارلیمانی گروپ نے کہا ہے کہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں لیکن محمد نواز شریف سے متعلق فیصلے پر مایوسی ہوئی، مسلم لیگ (ن) محمد نواز شریف کے ساتھ متحد کھڑ ی ہے اور ان کی صحت یابی کے لئے دعا گو ہے ۔ عدالتی فیصلے کا تفصیلی جائزہ اور اس پر وکلاءکی مشاورت جا ری ہے جس کی روشنی میں مناسب قانونی راستہ اختیار جائے گا، اجلاس میں سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی ،سابق وزیر دفاع خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، چیف وہیپ مرتضیٰ جاوید عباسی ، مریم اورنگزیب سمیت دیگر رہنماﺅں نے شرکت کی۔سابق وزیراعظم نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان نے بیان میں کہا ہے کہ 22جنوری کو ہارٹ پرفیوژن سکین میں نواز شریف کے عارضہ قلب کی تشخیص ہوئی خصوصی میڈیکل بورڈ نے بھی نواز شریف کے عارضہ قلب کی توثیق کی تھی نواز شریف کا باقاعدہ علاج نہیں کیا گیا ان کی صحت اور زندگی کو خطرہ ہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما و سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ چوہدری نثار اور ثاقب نثار کے جانے سے لوگوں کے چہروں پر خوشی آئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن)کے رہنما پرویز رشید نے کہا نیوز لیکس پر تنازعہ کھڑا کیا گیا، جسے روز پنکھے سے ہوا بھی چوہدری نثار نے دی۔نواز شریف کی ضمانت سے متعلق پرویز رشید نے کہا کہ انصاف میں دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں، سزا معطل ہونے کی صورت میں علاج کے لئے باہر جانے کا فیصلہ میاں صاحب خود کریں گے۔ اگر شریف خاندان کو ڈیل یا ڈھیل دی جا رہی ہے تو حکومت دوسرے فریق کا نام بتائے۔ مشرف کے باہر جانے پر مخالفین کی زبانیں بند کیوں ہو جاتی ہیں۔علاوہ ازیں نجی ٹی وی سے گفتگو میں مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ معذرت خواہ ہیں کہ نیب قوانین تبدیل نہیں کئے، نیب قوانین کے معاملے پر ہم سے غلطی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے کبھی نہیں کہا کہ وہ علاج کیلئے لندن جانا چاہتے ہیں۔سابق وزیر اعظم و پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد محمد نواز شریف سے جناح ہسپتال میں (ن) لیگ کے صدر و قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف اور مریم نواز نے ملاقات کر کے عدالتی فیصلے اور آئندہ کے لائحہ عمل بارے مشاورت کی۔ ذرائع کے مطابق تینوں رہنماﺅں نے ملاقات کے دوران فیصلہ کیا کہ تفصیلی عدالتی فیصلہ آنے کے بعد قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا۔ میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر قانونی مشاورت جاری ہے، عدالتوں کا ہمیشہ احترام کیا نہ ماضی میں گھبرائے نہ ہی اب گھبرائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ تفصیلی فیصلے کے بعد مسلم لیگ (ن) آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی اور قانون کے مطابق تمام تر وسائل بروئے کار لائے گی۔ نواز شریف سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آپ دعا کریں، اللہ خیر کرے گا۔ اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں اور تحریک کے حوالے سے سوال کے جواب میں شہباز شریف نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔
شہباز شریف
نواز شریف /ضمانت مسترد
اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو احتساب عدالت سے دی گئی سزا کی معطلی اور طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت مسترد کئے جانے پر مسلم لیگی حلقوں کی جانب سے مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے تاہم محتاط انداز میں ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما نے نوائے وقت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میاں نواز شریف ڈیل کرکے بیرون ملک جائیں گے اور نہ ہی وہ اس موضوع پر کسی سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف جرا¿ت و استقامت سے جیل کاٹ رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف جیل میں مسلم لیگی کارکنوں کیلئے ”سورس آف پاور“ کے طور پر رہنا چاہتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کو عدالتوں سے ریلیف نہ ملنے کی صورت میں آئندہ دو تین ماہ میں تحریک کے آپشن کو زیر غور لائے جانے کا امکان ہے۔علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ کسی کو سابق وزیراعظم کی صحت کے حوالے سے سیاست نہیں کرنی چاہئے ، عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں۔ پیر کو پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے میڈیکل گراﺅنڈ کی بنیاد پر ضمانت کے لئے درخواست دی جبکہ میڈیکل بورڈ نے بھی ان کی طبی بنیادوں پر ضمانت کے لئے سفارشات دی تھیں ۔ انہوں نے کہا کہ جناح ہسپتال کی رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی گئی، مسلم لیگ (ن) عدالت کے فیصلے کا احترام کرتی ہے، ہمارے وکلاءاس حوالے سے مشاورت کر رہے ہیں جو بھی قانونی راستہ ہو گا وہ اپنایا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن)کے مرکزی رہنماءسینیٹر ڈاکٹر آصف کرمانی نے کہا کہ بہترین علاج معالجہ کی سہولتیں ہر مریض کا بنیادی حق ہے، سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ہائی کورٹ سے طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست مسترد ہونے کی امید نہیں تھی۔ پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں ڈاکٹر آصف کرمانی نے کہا کہ ہم پ±ر امید تھے کہ نواز شریف کو طبی بنیادوں پر ریلیف مل جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ ہم اتنے ظلم کئے جائیں جتنے کل بر داشت کر سکیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہاکہ موجودہ حکومت نے نواز شریف پر ظلم و ستم کی انتہا کردی۔ سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہاکہ نواز شریف کو بیمار بیوی کی تیمارداری کی بھی اجازت نہ دی گئی۔
مسلم لیگ ن