نئی دہلی (این این آئی، نوائے وقت رپورٹ) بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں دریائے جمنا کے دوسری جانب واقع شمال مشرقی علاقوں میں شہریت کے متنازع ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں اور اس قانون کے حامیوں کے مابین ہونے والے پرتشدد واقعات میں مزید 9 افراد کی ہلاکت کے بعد ہلاک شدگان کی تعداد اب 13 ہو گئی ہے۔ اتوار سے جاری ہنگاموں میں اب تک درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ۔ یہ ہنگامے دہلی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہوئے۔ منگل کو جی ٹی بی ہسپتال کے ذرائع نے سات اموات کی تصدیق کی۔ ہنگاموں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد تین درجن سے زیادہ بتائی جا رہی ہے جبکہ 35 افراد کا علاج جی ٹی بی ہسپتال میں جاری ہے۔ دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں پرتشدد واقعات کے بعد چاند باغ، بھجن پورہ، برج پوری، گوکولپوری اور جعفرآباد میں خوف و ہراس کا ماحول ہے۔ یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ دہلی بی جے پی کے رہنما کپل مشرا کی زیرقیادت ایک ریلی کے بعد موج پور اور شمال مشرقی دہلی کے دیگر علاقوں میں تشدد پھوٹ پڑا۔ انہوں نے یہ ریلی جعفرآباد کے قریب موج پور کے علاقے میں ہفتے کی رات کو شہریت ترمیمی قانون کے حق میں نکالی تھی جہاں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ دھرنا دے رہے تھے۔کپل مشرا نے اپنی ریلی میں مظاہرین سے سڑک اور علاقے کو خالی کرنے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد وہ سڑکوں پر نکلیں گے۔ دہلی کے مختلف حصوں جیسے جعفرآباد، موج پور، سلیم پور اور چاند باغ سے تشدد اور ہنگاموں کی اطلاعات ملی ہیں۔ہزاروں کی تعداد میں موجود مجمع کو سنبھالنے کے لیے پولیس کی نفری کو کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور جب انھوں نے لاٹھی چارج شروع کیا تو وہاں پر بھگدڑ مچ گئی۔نئی دہلی کے وزیر اعلی اروند کجریوال نے وزیر داخلہ اور لیفٹیننٹ گورنر سے امن کی اپیل کی اور کہا کہ قانون کی بالادستی قائم کرنے میں مدد کریں۔لیفٹیننٹ گورنر انیل بئیجل نے دہلی کے پولیس کمشنر کو حکم دیا کہ امن و امان بحال کرنے کی پوری کوششیں کی جائیں۔دہلی کے مختلف علاقوں میں سکول بند اور 5 میٹرو سٹیشن بھی بند رہے۔ صورتحال کو قابو میں رکھنے کیلئے دہلی کے شمال مشرقی علاقے کو فوجی چھائونی میں تبدیل کردیا گیا ہے جہاں پیرا ملٹری فورسز کی 35 کمپنیاں تعینات کردی گئی ہیں۔ وزیر تعلیم نے علاقے کے تمام سکول بند کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ہندو بلوائیوں کا جتھہ اشوک نگر کی جامع مسجد کے مینار پر چڑھ دوڑا۔کئی افراد نے مینار پر چڑھ کر ہلال کے نشان کو اکھاڑنے کوشش کی جبکہ ساتھ ہی مسجد کے لاؤڈ سپیکر اتار کر زمین پر پھینک دیئے۔مسجد کا ایک مینار شہید کردیا۔ اس دوران انتہا پسندوں نے مسجد پر بھارتی ترنگا اور ہندوؤں کی مذہبی علامت سمجھے جانے والا پرچم لہرایا جبکہ اس دوران مسجد میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی۔دوسری جانب سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نے مسجد پر حملے کی مذمت کی ہے اور اسے ’بابری مسجد‘ جیسا سانحہ قرار دیا ہے۔صدر ڈاکٹر عارف علوی نے بھی اشوک نگر مسجد پر ہندو انتہاپسندوں کے حملے کی مذمت کی اور کہا کہ اس غارت گری سے بابری مسجد پر حملے کی یاد تازہ ہوگئی۔ دوسری جانب بھارتی دارالحکومت دہلی کے چار علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق دہلی شہر کے شمال مشرقی علاقوں میں ہنگامہ آرائی جاری ہے اور بلوائیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کردیئے گئے۔ دریں اثناء بغاوت کے جھوٹے الزام کے تحت گرفتار تین کشمیری طلباء کے خلاف درج مقدمے کی پیروی کیلئے شمالی کرناٹکا جانے والے بنگلورو سے تعلق رکھنے والے تین وکلا ء کو ہندو انتہا پسندوں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے اور دھمکیاں دی ہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق کشمیری طلباء طالب مجید، باسط آصف صوفی اور عامر محی الدین وانی جو کرناٹکا کے ضلع حبلی کے ایک پرائیویٹ کالج میں زیر تعلیم تھے کو گزشتہ ہفتے مبینہ طورپر پاکستان کے حق میں نعرے بلند کرنے اور سوشل میڈیا میں ایک پوسٹ جاری کرنے پر گرفتار کیاگیاتھا۔ بھارتی پولیس نے ہندو انتہا پسند تنظیموں کے مطالبے پر تینوں کشمیری طلباء کو گرفتا رکیاتھا ۔ہندو فرقہ پرست وکلاء کے گروپوںنے عدالت کے قریب کشمیری طلباء کے وکلاء کے خلاف مظاہرہ کیا جبکہ دائیں بازو کے مقامی کارکنوں نے ’’واپس چلے جائو اور بھارت ماتا کی جے ‘‘جیسے نعرے بلند کئے ۔ ہنگاموں میں اب تک 50 پولیس اہلکاروں سمیت 186 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ شمال مشرقی دہلی کے علقاے گوکولپوری‘ موج پور اور برہمپوری میں منگل کے روز جلاؤ اور گھیراؤ کے واقعات ہوئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق بلوائیوں نے متاثرہ علاقوں میں لوٹ مار بھی کی۔ نور الٰہی کے علاقے سے مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔ بلوائیوںنے متاثرہ علاقوں میں لوٹ مار بھی کی۔ نور الٰہی کے علاقے سے مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔