علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر
حضرت رسول اللہؐنے فرمایا ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑکی خلقت سے سوا چار لاکھ نوری سال پہلے خلق فرمایا ۔’’اول ما خلق اللّٰہ نوری ‘‘ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے میرے نور کو خلق فرمایا اور حدیث قدسی میں رب کائنات نے اعلان فرمایا ’ (ترجمہ)اے احمد ؐ اگر آپ کو خلق نہ کرتا تو کائنات کی کوئی شئے خلق نہ کرتا۔آپ ؐ نے ارشاد فرمایا(: تر جمہ) میںؐ اور علی ؓ ایک ہی نور سے ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐنے فرمایا ۔’’اللہ تعالیٰ نے میرے نور سے آسمانوں اور زمین کو خلق فرمایا‘‘علی ابن ابی طالب ؓکے نور سے عرش و کرسی کو خلق فرمایا ۔ امام حسنؓکے نور سے لوح و قلم کو خلق فرمایا اور امام حسینؓ کے نور سے جنت اور حورالعین کو خلق فرمایا اور میری بیٹی فاطمہؓکے نور سے پوری کائنات ارض و سماء کو روشن فرمایا ،سورج اور چاند کی روشنی حضرت فاطمہ زہرا ؓکے نور کی خیرات ہے۔
13رجب المرجب عام الفیل کے تیس سال بعد جوف خانہ کعبہ میں تشریف لایا ۔جناب علیؓ کیلئے دیوار کعبہ شق ہوئی جہاں سے آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسدخانہ کعبہ میں داخل ہوئیں۔ان کے ظہورکے بعد آپ کو لے کر باہر آئیں ۔حضرت علی ؓکو اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کی ایسی فضیلتیں عطا فرمائیں جو شاید کسی کو عطا نہ فرمائی ہوں۔خانہ کعبہ سے نکلتے ہی حضرت خاتم الانبیاء ؐ نے اپنے دست مبارک پر لیا ،حضرت علیؓ کی نگاہوں نے دنیا میں آتے ہی سب سے پہلے چہر ہ انور سید المرسلین ؐ کی زیارت کا شرف حاصل کیا ۔ رسول اللہ ؐ نے لعاب دہن مبارک کی گھٹی دی اور اس مولود کی تربیت کی ذمہ داری خود اپنے ذمہ لی ۔اللہ تعالیٰ کے حکم سے مولود کعبہ کا نام علی ؓرکھا گیا۔ حضرت علیؓ خود ارشاد فرماتے ہیں میں رسول اللہ ؐ کے پیچھے پیچھے اس طرح چلتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اونٹی کے پیچھے چلتا ہے اور آپ ؐ نے مجھے اس طرح علم عطا کیا جس طرح کبوتر اپنے بچے کو دانہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے منہ میں دیتا ہے۔
فطرت اسلام پر پیدا ہونے والے اس مولود کعبہ نے خاتم الانبیاء ؐ کی اقتداء میں اعلان نبوت سے پہلے ہی نمازیں پڑھیں۔ اعلان نبوت کے بعد سے لے کر وقت شہادت تک آپ اور آ پ کے مشن کی تبلیغ اور دفاع کی خاطر قربانیوں کیلئے زندگی وقف کررکھی تھی۔ شب ہجرت تلواروں کے سائے میں بستر مصطفی ؐ پر سوکر قرآن کریم کی آیت مجیدہ’’ ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللّٰہ ‘‘کے مطابق اللہ کی مرضیوں کے مالک بنے ۔ رسول اکرم ؐ کے زمانہ حیات کے جتنے غزوے اور جنگیں ہوئیں آ پ نے ہر جنگ میں حصہ لیا اور فاتح قرار پائے۔ آ پ کو پرچم اسلام کو سر بلند رکھنے کا اعزاز حاصل ہے آپ دنیاوی زندگی میں بھی رسول اکرم ؐکے علمدار تھے اور روز قیامت میدان محشر میں بھی لواء الحمد اٹھانے والے آ پ ہی ہوں گے۔ جس کے سائے کے سوا ء کوئی سایہ نہ ہوگا۔ آپ کوجنگ تبوک پر روانہ ہوتے وقت رسول اکرم ؐنے مدینہ منورہ میں رہنے کا حکم دیا تو فرمایا تھا یاعلیؓ تیری میرے ساتھ وہی نسبت ہے جو ھارون ؑ کی موسی ؑکے ساتھ تھی مگر میرے بعد کوئی نبی ؐ نہ ہوگا۔ آنحضرت ؐ نے آپ ہی کے بارے میں فرمایا تھا ۔’’ علیؓ مجھ ہے اور میں علیؓ سے ہوں ‘‘اے علیؓ تودنیا اور آخرت میں میرا بھائی ہے ۔اے علی ؓ تیرے ساتھ سوائے مومن کے کوئی محبت نہیں کرے گا اور سوائے منافق کے تیرے ساتھ کوئی بغض نہیں رکھے گا ۔آپؐ نے فرمایا علی ؑ کی محبت گناہوں کو اس طرح ختم کرتی ہے جیسے خشک لکڑی کو آگ۔ آپؐ نے فرمایا جس کسی کے دل میں میرے بھائی علیؓ کی رائی کے دانہ کے برابر بھی محبت ہوگی اس پر جہنم حرام ہے۔ قرآن علیؓ کے ساتھ ہے اور علی ؑ قرآن کے ساتھ ہیں ۔ حق علیؓ کے ساتھ ہے اور علیؓ حق کے ساتھ ہے اے میرے اللہ حق کو ادھر پھیر دینا جدھر علی ؑ پھرتا جائے۔ اور ارشاد فرمایا اے لوگو ! اگر فرض کرو کوئی ایسا زمانہ آئے جس میں ساری دنیا ایک طرف کھڑی ہو اور تنہا علیؓ دوسری جانب کھڑے ہوں تو ساری دنیا کو چھوڑ دینا اور علی کا ساتھ دینا ، علی کی ساری زندگی فدا کاری سے عبارت ہے۔ جنگ خندق کے دن کی آ پ کی صرف ایک ضرب ثقلین کی بندگی سے افضل ہے اسی جنگ میں آ پ نے آپ کو کل ایمان کا لقب دیا تھا۔
واحد ہستی علی ابن ابی طالب کی ہے جن کے بارے میں رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا تھا ’’میرے بعد سب سے بڑے عالم علیؓ ہیں ، سب سے بڑے قاضی علی ؓ ہیں، آ پ کا نظام حکومت عدل و انصاف کا نمونہ تھا آپ کامرتب کردہ نظام حکومت آج بھی اقوام عالم کے لئے رہنما اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے اور آپ کی ولایت کے بارے میں ختمی مرتبت ؐ نے فرمایا تھا ۔’’جس جس کا میںؐ مولا ہوں اس اس کا علی مولا ہے۔ یہ اعزاز بھی صرف آپ ہی حاصل ہے کہ مسجد کوفہ میں وقت شہادت فرمایا تھا کہ رب کعبہ کی قسم میں علیؓ کامیاب ہوا، اے ستارہ صبح گواہ رہنا ہمیشہ علیؓ ابن ابی طالب نے تجھے طلوع دیکھا ہے تو نے کبھی علیؓ کو سویا ہو ا نہیں پایا۔اللہ تعالیٰ ہمیں علی ابن ابی طالب کی محبت پر ثابت قدم رکھے اور ہر امتحان میں کامیابی عطا فرمائے ۔