اسلام آباد (اعظم گِل /خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے سینٹ الیکشن سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت مکمل ہونے کے بعد رائے محفوظ کر لی ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ ہر جماعت شفاف الیکشن چاہتی ہے لیکن بسم اللہ کوئی نہیں کرتا۔ کیا وجہ ہے کہ انتحابی عمل سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ترمیم نہیں کی جارہی؟۔ انتحابی عمل شفاف بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں، سب کرپٹ پریکٹس کو تسلیم بھی کررہے ہیں، خاتمے کے اقدامات کوئی نہیں کر رہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آرٹیکل 51 کے تحت مخصوص نشستوں کے انتخابات خفیہ کیسے ہوتے ہیں؟۔ مخصوص نشستوں کا کوٹہ اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی سیٹوں کے تناسب سے ملتا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اصل مقصد تو کرپٹ پریکٹس کو ختم کرنا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا بیلٹ پیپر بذات خود ایک ثبوت ہے۔ اگر رقم اور بیلٹ پیپر کا تعلق سامنے آئے تو الیکشن کمیشن کو چیک رکھنا چاہیے۔ چوکیدار کھڑا کریں گے تو ہی بچائے گا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے پاکستان بار کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں آرٹیکل 226 کے تحت تمام الیکشن منعقد کیے جاتے ہیں؟۔ پاکستان بار کونسل کے وکیل منصور عثمان اعوان نے کہا اگر سینٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کیا گیا تو اس کا اثر تمام انتحابات پر ہو گا۔؟ آئین میں کسی الیکشن کو بھی خفیہ بیلٹ کے ذریعے کروانے کا نہیں کہا گیا۔ درحقیقت الیکشن کا مطلب ہی سیکرٹ بیلٹ ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا عدالت کے سامنے سوال صرف آرٹیکل 226 کے نفاذ کا ہے۔کیا وجہ ہے کہ انتحابی عمل سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ترمیم نہیں کی جارہی؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا اٹارنی جنرل نے عمومی نہیں الیکشن کے حوالے سے بات کی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا سینٹ انتخابات میں ووٹ کس کو دینا ہے اسکا تعین سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہاسیاسی جماعتوں کا کردار دنیا بھر میں بہت اہم ہے، ڈسپلن نہیں رکھنا تو سیاسی جماعتیں بنانے کا کیا فائدہ ہے؟ جس پر وکیل احسن عرفان نے کہاعائشہ گلالئی کیس میں عدالت کہہ چکی ہے پارٹی سربراہ کو لامحدود اختیارات نہیں ہوتے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیا ہم صدر کو بلا کر پوچھیں کہ انہیں سوال کیوں عوامی اہمیت کا لگا؟۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا آرٹیکل 19 A کا بنیادی حق بھی قانون کے تابع ہے۔ چیف جسٹس نے کہا مقامی حکومتوں کے انتحابات کا طریقہ کار تو آئے روز تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا الیکشن کمیشن سویا ہوا ہے اور جاگنے کو تیار نہیں۔ الیکشن کمیشن نے کرپشن بھی روکنی ہے صرف انتحابات ہی نہیں کرانے۔ بار بار پوچھا کرپشن روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے لیکن الیکشن کمیشن کا کوئی جواب نہیں ملا۔ اٹارنی جنرل نے جواب الجواب میں کہا ووٹ کا جائزہ لینے سے سیکریسی ختم نہیں ہوتی، کوئی شہری پیسہ لیکر ووٹ نہ دے یہ جرم ہوگا، کوئی ایم پی اے ووٹ نہ ڈالنے کے پیسے لیکر ووٹ ڈالے تو جرم نہیں ہوگا، ریفرنس سیاسی نہیں آرٹیکل 226 کی تشریح کیلئے ہے۔ جسٹس یحی خان آفریدی نے کہا کیا ریفرنس پرسپریم کورٹ کی رائے حتمی ہوگی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا حکومت عدالت کی رائے کی پابندہوگی، جسٹس یحی خان آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا عدالتی رائے پر نظر ثانی درخواست آسکتی ہے ؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہاریفرنس پر نظر ثانی درخواستیں نہیں آسکتی جسٹس یحی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا ایسا فیصلہ درست ہوگا جس کے اثرات سیاسی ہوں اور نظر ثانی بھی نہ ہو سکے؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہاعدالت ہر چیزکا تفصیل سے جائزہ لیکر فیصلہ کرتی ہے،چیف جسٹس نے کہاعدالت کا سیاست سے تعلق نہیں، صرف آئین کی تشریخ کرینگے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاریفرنس پر جواب دیں یا نہ دیں اثرات سیاسی ہی ہوں گے، قومی اسمبلی کے لیے ووٹنگ کا لفظ استعمال ہوا۔ جبکہ سینٹ ووٹنگ کے لیے پول کا لفظ استعمال ہوا۔ ووٹنگ اور پول کے لفظ میں فرق کیا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہاسینٹ کا الیکشن آئین کے تحت نہیں ہے۔ سینٹ کا الیکشن آئین کے مطابق ہونے سے آئین کے دیگر آرٹیکلز کے خلاف ورزی ہو گی۔