’’مملکتِ خداداد‘ اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے شہریوں سے سب سے پہلا مطالبہ یہ کرتی ہے کہ وہ پورے اخلاص سے پاکستان کو اپنے ذاتی گھروں سے زیادہ قیمتی گھر اور اپنے ہم وطنوں کو سگے بہن بھائیوں سے زیادہ عزیز تر سمجھیں۔ اگر ہم اس وطنِ عزیز کو اپنا گھر نہیں سمجھیں گے اور ا سکے شہریوں سے اجنبیت کا رویہ اختیار کرینگے، تو یہ کج روی، ہمیں ملک و ملت سے دشمنی کرنیوالوں کی صف میں کھڑا کردیگی۔‘‘ مادرِوطن سے عشق کے خمیر میں گندھے یہ الفاظ اس اعلامیہ کے ہیں جو حال ہی میں تیرہویں سالانہ سہ روزہ نظریۂ پاکستان کانفرنس کے اختتام پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے جاری کیا گیا۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’’آج سے پچاس برس پہلے 1971ء میں بھارت اور بھارت کی پشت پناہی میں پاکستانی سیاست دانوں کے ایک گروہ عوامی لیگ نے سازش کرکے قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان میں پہلے بغاوت اور پھر جارحیت کرکے اسے توڑنے کا گھنائونا فعل انجام دیا… آج کا پاکستان‘ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قوم کے سنجیدہ اور فہمیدہ لوگ جب اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتے تو غدار ناقابلِ تلافی نقصان پہنچادیتے ہیں۔ جب دشمن نے دشمنی سے باز نہیں آنا تو ہمیں دشمن اور دشمن کے ہمنوا غداروں کو پہچاننے اور انکے چہروں سے نقاب نوچنے اور سیاسی مسائل کو عقل مندی سے حل کرنے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔‘‘۔ بانیٔ پاکستان کے وصال کے بعد اس بنیاد کو کمزور اور بالآخر منہدم کرنے کی شعوری کوششوں کا آغاز کیا گیا اور طویل فوجی آمریتوں کے دور میں یہ کوششیں ثمرآور ہوئیں۔ جس خطے میں پاکستان کی مادر جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا، وہیں کے باشندوں کا وفاقِ پاکستان اور دستورِ پاکستان پر اعتماد مجروح کردیا گیا۔ غور کیاجائے تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے جذبات پروان چڑھانے میں وہاں کی درسگاہوں میں تعینات ہندواساتذہ نے بھی کلیدی کردار ادا کیا اور مغربی پاکستان کی رعونت بھری حکمران اشرافیہ نے اصلاحِ احوال کی ذرہ بھر کوشش نہ کی۔ موجودہ پاکستان میں بھی قوم کو طبقات میں تقسیم کرنے کا کارنامہ مروجہ نظامِ تعلیم نے ہی انجام دیا ہے۔ اعلامیہ میں اس امر کا احاطہ کچھ یوں کیا گیا ہے: ’’اس نظامِ تعلیم میں وہ نظریاتی بنیاد بھی گم ہوچکی ہے جس بنیاد کو علامہ محمد اقبالؒ قائم کرنا اور قائم رکھنا چاہتے تھے۔ اس نظامِ تعلیم میں وہ وژن بھی غائب ہے جس کے تحت قائداعظمؒ اس ملت کو ترقی کی منازل پر لے جانا چاہتے تھے۔‘‘ اعلامیہ میں بنگلہ دیش میں متحدہ پاکستان کے ان حامیوں سے مکمل یک جہتی کا اعلان کیا گیا ہے جنہوں نے 1971ء میں اس مملکتِ خداداد کے دونوں بازوئوں کو متحد رکھنے کی خاطر مکتی باہنی اور بھارتی فوج کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور جس کی قیمت وہ آج پھانسیوں اور قید و بند کی صعوبتوں کی صورت ادا کررہے ہیں۔ ہمیں بے خبری اور لاتعلقی کی بیماری سے نجات پاتے ہوئے، اپنے کشمیری بھائیوں کی عظیم جدوجہد کا فہم حاصل کرنا اور اس مناسبت سے اپنی ذمہ داری کو پہچاننا ہوگا۔ اعلامیہ میں حریت کانفرنس کے رہنمائوں سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یٰسین ملک، شبیر شاہ، آسیہ اندرابی، مسرت عالم بھٹ اور اشرف صحرائی کی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ علاوہ ازیں قیامِ پاکستان کے حقیقی مقاصد کی تکمیل کے حوالے سے اپنی بے وفائیوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے خودفہمی اور خوداحتسابی کا میزانیہ تیار کرنے اور اسے ہر سطح پر اُجاگر کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
کانفرنس کی افتتاحی نشست میں معروف دانشور پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری نے کانفرنس کے کلیدی موضوع ’’ہماری منزل- پاکستان کا تابناک مستقبل‘‘ کے حوالے سے اپنے کلیدی خطاب میں قائداعظم محمد علی جناحؒ کے وژن کے مطابق تعمیر پاکستان کے لیے انتہائی مفید تجاویز پیش کیں اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی قوم ساز سرگرمیوں کے تناظر میں کہا کہ اس کی استعداد کو حرکت میں لاتے ہوئے ایک نیشنل کمیونی کیشن سپورٹ سسٹم قائم کیا جائے تاکہ ہمارے بیمار سماجی رویوں میں صحت مند تبدیلی لائی جاسکے۔ اسی طرح سرکاری محکموں کی استعدادِ کار بڑھانے کی خاطر متعلقہ شعبوں کے حقیقی ماہرین و محققین پر مشتمل تھنک ٹینکس قائم کیے جائیں نیز انہیں عوام دوست بنانے اور بدعنوانی سے مکمل پاک کرنے کیلئے ای۔گورننس کا آغاز کیاجائے۔ ایک اہم تجویز یہ ہے کہ ارضیات، ماحولیاتی سائنس اور آبی وسائل کے ماہرین تیار کرنے کی خاطر ایک قومی تعلیمی و تحقیقی ادارہ قائم کیا جائے تاکہ وطنِ عزیز کے بیش بہا مگر جامد قدرتی وسائل سے استفادے کی راہ نکل سکے۔ قومی تعمیر و ترقی میں ذرائع ابلاغ کے کردار کے تناظر میں پروفیسر ڈاکٹر مجاہد منصوری نے تجویز پیش کی کہ ایڈووکیسی کے نرم لیکن انتہائی موثر طریقِ کار کو استعمال میں لاتے ہوئے ذرائع ابلاغ کے مالکان اور سینئر صحافیوں کا تعاون حاصل کیاجائے اور ایک مرکزی قومی ابلاغی دھارا تشکیل دیکر قومی ایجنڈے میں مطلوبہ تبدیلیوں کا ہدف حاصل کیاجائے۔ انہوں نے شرکاء کانفرنس کے مکالمہ کیلئے 12 نکاتی لائحہ عمل بھی دیا۔ اس نظریاتی اجتماع میں قومی اہمیت کے 14مختلف موضوعات پر گروہی مباحثے بھی منعقد ہوئے جن میں مندوبین نے بہت زیادہ دلچسپی لی اور قابلِ عمل سفارشات مرتب کیں۔ ان میں قومی زبان اُردو کے نفاذ، دفاع کے شعبے میں خود انحصاری، یکساں نصاب تعلیم اور نظامِ تعلیم کے جلد از جلد نفاذ، ہر شہری کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے، سیاسی استحکام میں نظریاتی اداروں کے کردار کی اہمیت، مستحکم معاشی نظام کی تشکیل، بھارتی آبی جارحیت کے سدباب کیلئے حکمتِ عملی ترتیب دینے، اہلِ وطن کی کردارسازی، تعلیمی اداروں میں سماجی برائیوں کے تدارک، ریاستِ مدینہ کے معاشی نظام کی پیروی، خواتین کو سیاسی و سماجی میدانوں میں فعال کردارادا کرنے، جدید علوم کو فروغ دینے، سوشل میڈیا کے اثرات پر نگاہ رکھنے نیز تاریخ، تہذیب اور تمدن سے آگہی میں عجائب گھروں کا کردار اُجاگر کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
قارئین کرام! اس کانفرنس میں ہرسُو پاکستان کی محبت میں سرتا پا سرشار مندوبین بابائے قوم کے نظریات و تصورات کے مطابق وطنِ عزیز کی تعمیر کے متمنی دکھائی دیے۔ انکی آنکھوں میں، ان کی باتوں میں‘ پاکستان کے تابناک مستقبل کی جھلک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ انہوں نے کانفرنس کے اعلامیے، تجاویز اور سفارشات کی بھرپور تائید کی اور عہد کیا کہ وہ قائداعظمؒ کے وژن کیمطابق اس مملکت کی تعمیر کرکے دم لیں گے۔ بالآخر پاکستان کی عظمت کے گن گاتے یہ فرزانے مادرِوطن کی حرمت پر جان قربان کردینے کا عزم دہراتے اپنے اپنے میدان ہائے کارزار کی طرف واپس لوٹ گئے۔