پاک فوج کا عالمی میڈیا کے سامنے بھارت کا دہشتگرد چہرہ بے نقاب کرتے ہوئے امن کی خواہش کا اظہار
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں شدت پسندوں کی مدد کی جا رہی ہے۔ بھارت ان دہشتگرد تنظیموں کو اسلحہ، پیسے اور نئی ٹیکنالوجی سے بھی نواز رہا ہے۔ جس کا مقصد دہشت گردوں کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ گزشتہ روز غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ انکشافات کئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ بات بعید ازقیاس نہیں ہے کہ یہ سب کارروائی افغان انٹیلی جنس کے علم میں ہے۔ میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ آرمی چیف نے ایک حالیہ بیان میں ہمسایہ ممالک کی جانب امن کا ہاتھ بڑھانے کی بات کی تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستان مشرقی سرحد پر درپیش خطرات سے آگاہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی تمام فوجی نقل و حرکت ہماری نظر میں ہے۔ پاکستان ان خطرات سے نمٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ وزیرستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اب دہشت گردوں کے منظم اور محفوظ ٹھکانے نہیں ہیں لیکن چند عناصر موجود ہیں جو دوبارہ فعال ہونے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں بیرونی ایجنسیوں کی جانب سے اسلحے کی فراہمی اور مالی معاونت کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں جس بھی قسم کی دہشت گردی ہوتی ہے‘ اس میں بھارت کے ملوث ہونے کے ناقابل تردیدشواہد موجود ہیں جو دنیا کے سامنے ایک ڈوژیئر کی صورت میں رکھے جا چکے ہیں۔ نریندر مودی اور انکے قومی سلامتی کے مشیر متعدد بار کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس میں پاکستان کو ملوث قرار دیکر بلوچستان اور آزاد کشمیر میں بدلہ چکانے کے بیانات دے چکے ہیں۔ یہ بذات خود بھارت کی طرف سے پاکستان میں مداخلت کا اعتراف ہے۔
بھارت کی طرف سے کالاباغ ڈیم کی مخالفت کرتے ہوئے اسکے مخالفین پر’’ سرمایہ کاری‘‘ کی گئی۔ سی پیک منصوبہ سامنے آیا تو اسے ایسے ایجنٹوں کی تلاش تھی۔ کچھ نے پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش بھی کی مگر وہ کسی بڑی ’’معرکہ آرائی‘‘ میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو پاکستان سے برگشتہ کیا جاتا ہے۔ کئی علیحدگی پسند لیڈر آج بھی بھارت میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ دیگر ممالک میں موجود پاکستان سے تعلق رکھنے والے پاکستان دشمنوں کی زبانیں بھارت کی زبان میں زہر اگلتی ہیں۔ کراچی میں حالات بگاڑنے میں بھارت کو وطن دشمنوں کی ایک کھیپ میسر تھی۔ وہ اب بھی زیرزمین کہیں نہ کہیں موجود ہیں۔ اور پھر پاکستان کو دہشت گردی میں بری طرح جکڑنے کیلئے کچھ گمراہ عناصر کو مذہبی کارڈ دیکر استعمال کیا گیا۔ کچھ لوگوں نے ٹی ٹی پی کے گمراہ کن نظریات کی حمایت کی۔ ان کا اثرورسوخ اداروں تک بھی بڑھا۔ بات نظریات تک رہتی تو شاید صورتحال اتنی گھمبیر نہ ہوتی مگر یہ لوگ پاکستان کے دفاع کو نقب لگانے لگے۔ پاکستان کی دفاعی تنصیبات پر حملے معمول بن گئے۔ پاک فوج کے جوانوں‘ افسروں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ عام شہریوں پر حملے ہوتے‘ عدلیہ بھی دہشت گردی کی زد میں رہی۔ ان لوگوں کے بھارت کے ایجنٹ اور پروردہ ہونے میں کوئی شبہ نہ رہا تو اپریشن کرکے ان کو جہنم واصل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے۔ پاک افواج نے اس میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ دہشت گردوں کی اکثریت ماری گئی یا پاکستان سے بھاگ گئی۔ اکادکا واقعات وہ آج بھی کرجاتے ہیں‘ وہ بھی پاکستان کے دشمن کے ایماء پر۔ بھارت افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کیخلاف استعمال کرتا رہا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پاکستان نے بارڈر مینجمنٹ کے ذریعے افغانستان سے مداخلت روکنے کی کوشش کی ہے۔ پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب مکمل ہونیوالی ہے جس سے افغانستان سے تو مداخلت کم ہو جائیگی مگر بھارت کو پاکستان کے اندر سے بھی کچھ لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ جن کو کلبھوشن یادیو جیسے دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ افغان مہاجرین کے بھیس میں بھی دہشت گرد موجود ہیں۔ دشمن سہولت کاری کیلئے بھی ’’سرمایہ کاری‘‘ کرتا ہے۔ سہولت کاروں کے بغیر تخریب کاری و دہشت گردی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردوں کی گردنیں ناپنے کیلئے اگر نیشنل ایکشن پلان کا کوئی پہلو کمزور ہے تو وہ سہولت کاروں کے حوالے سے ہے۔
پاکستان کے کسی بھی ملک کیخلاف جارحانہ عزائم نہیں رہے۔ پاکستان پرامن ملک ہے اور خطے میں امن کے قیام کیلئے کوشاں ہے۔ جبکہ اسے ایسے دشمن کا سامنا ہے جس کیلئے پاکستان کا وجود ناقابل برداشت ہے اور اسکی توسیع پسندانہ ذہنیت سے خطے کے تمام ممالک متاثر ہیں۔ اسکے ہر پڑوسی ملک کے ساتھ تنازعات ہیں اور ان ممالک کے کئی علاقوں پر بھارت قابض ہے۔ مقبوضہ کشمیر پر قبضہ اسکے جارحانہ اور توسیع پسندانہ عزائم کی ایک مثال ہے۔ مقبوضہ وادی میں اس نے ظلم و بربریت کی انتہاء کی ہوئی ہے جہاں انسانی المیہ بدترین شکل اختیار کرچکا ہے۔ ادھر اس نے ایل او سی پر بھی شرانگیزی میں اضافہ کر دیا ہے۔ بھارتی فورسز کی طرف سے لائن آف کنٹرول کے پار بچوں اور عورتوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جو ایک جنگی جرم ہے۔
بلاشبہ پاکستان ایک پرامن ملک اور خطے میں امن کا خواہاں ہے مگر اپنے دفاع سے غافل نہیں ہے۔ دشمن کی ہر حرکت پر افواج پاکستان کی نظر ہے اور ضرورت پڑنے پر اس کا منہ توڑ جواب دیا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین بنیادی اور بڑا تنازعہ کشمیر ایشو ہے وہ حل ہو جائے تو خطے میں امن کا قیام یقینی بن سکتا ہے۔ سری لنکا میں مختلف فورمز پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ہم کشمیر سمیت تمام مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے حل ہو۔ مسئلہ کشمیر کا یہی بہترین حل ہے اگر بھارت اس طرف نہیں آتا تو عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنے اور عملیت سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔