صحافت کو’’ پیغمبری پیشہ‘‘ کہاگیا ہے ،ماضی پر نظر ڈالیں تو اخبارنویسوں کی اکثریت اپنے فرائض کی ادائیگی میں اس پیشہ کی عظمت اور قلم کی حرمت کو تمام امورسے مقدم سمجھتے تھے ۔ ’’قلم کی حرمت‘‘ کی پاسداری کرتے ہوئے حق اور سچ کا پرچم سربلند رکھنے والے مولانا ظفر علی خانؒ ، مولانا محمد حسین آزادؒ ،مولانا چراغ حسن حسرت ؒ اور حمید نظامیؒ سمیت دیگر بہت سے عظیم بااصول و باکردار اخبار نویسوں میں ایک نام میرے والد بزرگوار سید ناصر بخاری ؒکا بھی تھا ۔ضلع اٹک ( کیمبل پور)کے نواحی گاؤں پنڈ فضل خان میں پیدا ہونے والی علم دوست و انسان دوست شخصیت نے اپنی شبانہ روز محنت سے شعبہ صحافت میں اپنا مقام پیدا کیااور انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہیں کئی برس گذر جانے کے باوجود آج بھی اچھے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔بلاشبہ اولاد تو والدین کی یقیناً تعریف ہی کرتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کچھ والدین اس قدر اپنی مثال آپ ہوستے ہیں کہ جن کی تعریف کئے بغیر انسان رہ نہیں سکتا ۔مرحوم سیّد ناصر بخاری ؒکا شمار بھی انہیں عظیم ہستیوں میں ہوتا ہے کہ جنہیں اولاد سے زیادہ دنیا یاد کرتی ہے ۔ان کا اخلاق و کرداراور اصول پسندی دوسروں کیلئے نمونہ عمل تھی۔انہوں نے اپنی زندگی خدمت انسانیہ کیلئے وقف رکھی ، ساری زندگی شعبہ صحافت سے وابستگی میں گذری ،انہوں نے ہمیشہ حق اور سچ کا پرچم سربلند رکھا ،فرنگی سامراج کا زمانہ آزادی اظہار کے لیے ایک مشکل اور کٹھن دور رہا ، جابر سلطان کے سامنے کلمہ ء حق کہناحقیقی معنوں میں کسی جہاد سے کم نہ تھاآپ نے اس دور میں بھی کبھی حکمرانوں کی ’’جی حضوری ‘‘یا خوشامد نہ کی ،ضمیر فروشی ، قلم فروشی گویا آپ کی نظر میں گناہ ِکبیرہ رہا۔انکو جدا ہوئے 30برس کا طویل عرصہ بیت چکا لیکن یوں لگتا ہے کہ گویا یہ کل ہی کی بات ہے ۔ غریب پروری، ہمدردی ،غمگساری،ملنساری اور انکساری ناصر بُخاری ؒ کی ذات کا خاصا تھی۔میرے لیے یہ فخرو انبساط کی بات ہے کہ میں اپنے وقت کے ایک بلند کردار انسان اور عظیم والد کا بیٹا ہوں کہ جس نے اپنے رب کی خوشنودی اور اولادکی خوشی کیلئے اپنا آپ فنا کر ڈالا،زندگی کے سفر میں انہیںمیری ماں کی شکل میں ایک ایسا ہمسفر ملا کہ جس نے انتہائی مشکل معاشی حالات میں بھی صبر و استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔وہ جو کہتے کہ ’’ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ‘‘،تو یقینا میرے والد کی کامیابی اور کامرانی میں جہاں ان کی محنت اور لگن شامل ہے وہاں میری والدہ مرحومہ (جن کا چار سال قبل انتقال ہوگیا ہے) کابہت بڑا کرداررہا۔انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کر ہمارے لئے زندگی کا جو سکھ پیدا کیا ،اسے الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ۔آج ہم جس چھت تلے ایک پرسکون زندگی گذار رہے ہیں،یہ سب میرے والد بزرگوار اور میری والدہ مرحومہ کی ہم سے محبتوں کا انعام ہے ۔ والد مرحوم نے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان سے قریبی تعلق اور دوستی کے باوجود کسی قسم کی مراعات حاصل نہ کیں ۔ میں آج بھی اپنے والد بزرگوارکی عظمت کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جنہوں نے اپنی زندگی میںدولت کمانے کی بجائے ’’نیک نامی ‘‘کمائی ،عوام کی خدمت کی ، دوست بنائے ،لوگوں کو روزگار دلانے میں ان کی مدد کی ،آج دوستوں اور شاگردوں کی صورت چھوڑا ہوا اُن کا یہ اثاثہ ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ۔آج میں اپنے والد کے ان دوستوں اور بہی خواہوں کا بھی شکر گزار ہوں کہ جنہوں نے مشکل کی ہر گھڑی میں میرا ساتھ دیا اور میری مشکلات کو حل کرنے میں میری ہر ممکن اور بے لوث مدد کی ۔سچ تو یہ ہے کہ ان کی صحافتی زندگی آل راؤنڈر صحافی کی حیثیت سے حقائق نگاری اور اصولوں سے عبارت تھی ، ۔کورٹ رپورٹنگ میں انہیں بہت ہی کمال حاصل تھا۔ وہ ’’خبر‘‘کے حوالے سے اور عملی زندگی میں ’’سچ‘‘ کی تلاش میں سرگرداں رہے ۔خبر کیلئے کبھی ’’ایف آئی آر ‘‘ کا سہارا نہیں لیا ،اس لیے جرائم کے حوالے سے ان کی رپورٹنگ مثال کی حیثیت رکھتی تھی ، وہ ایک ایک خبر اور واقعہ کے حقائق جانے کیلئے میلوں پیدل مسافت طے کرتے اور حقیقت پر مبنی خبریں فراہم کرتے تھے انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز مولانا ظفر علی خان کے اخبار ’’زمیندار‘‘ سے کیا ، بعدازاں روزنامہ ’’تعمیر‘‘ سے وابستہ رہے ،پھر جب روزنامہ’ ’کوہستان‘‘ کا اجرا ء ہوا تو آپ اس کے ساتھ منسلک ہو گئے ۔وہ 18برس روزنامہ نوائے وقت‘ سے منسلک رہے ،ان کی صحافتی زندگی 40 سالوں پر محیط ہے ۔ صحافتی شعبے میں انہوںنے جو راہیں آنے والی نسلوں کے لئے متعین کیں ،وہ ہم سب کے لئے راہ ہدایت اور روشنی کا مینار ہیں ،حق اور سچ کی آواز کو پھیلانے میں قدم قدم پر رکاوٹیں اور مشکلات ہیں لیکن ہمیں حوصلہ مندی کے ساتھ اپنے مشن کو آگے بڑھانا ہے۔آج ان کی وفات کو 30برس بیت گئے ہیں بیشک! ملک میںاخلاقی و معاشرتی اقدار ناپید ہو چکی ہیں، نفسا نفسی اورظلم اور انصافی کی دوردورہ ہے ،حقوق العباد کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے ، زور آور لوگوں نے صحافت کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ، اس کے باوجود آج ایک مرتبہ پھر ہم اپنے اس عزم کی تجدید کرتے ہیں کہ ہم اپنے والدبزرگوا رکامشن جاری رکھیں گے ۔