روس ، یوکرائن، پاکستان اور امریکہ

وزیر اعظم عمران خان دورہ روس کرکے وطن لوٹ آئے ہیں۔23 برس میں کسی پاکستان رہنما کا روس کا پہلا دورہ ہے۔ خطے کے موجودہ حالات میں مذکورہ دورہ اقوام عالم کے سامنے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ دورہ ایسے وقت میں کیا گیا جب روس اور یوکرین کے مابین کشیدگی اپنے عروج پر تھی۔ شومئی قسمت کہیں یا کچھ اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے روس میں موجود ہوتے ہوئے روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے یوکرین سے باقاعدہ جنگ کا اعلان کر دیا۔ وزیر اعظم عمران خان کی روسی صدر سے ملاقات کا شیڈول پہلے ایک گھنٹے پر محیط تھا تاہم ملاقات کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا دورانیہ تین گھنٹے تک کر دیا گیا تھا اور جب ملاقات ہوئی تو یہ تین گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی۔ عالمی ماہرین نے وزیراعظم عمران خان اور روس کے صدر پیوٹن کے مابین ہونے والی ملاقات کو اس دورے کا اہم ترین جزو قرار دیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے جنوبی ایشیا کے معاملے پر مقبوضہ کشمیرکی صورت حال اجاگر کی، وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر تنازع کے پرْامن حل پر زور دیااور روس اور یوکرین کے درمیان تازہ صورتِ حال پر افسوس کا اظہار کیا اورکہا کہ پاکستان کو امید ہے کہ سفارت کاری فوجی تنازع سے بچاسکتی ہے۔وزیراعظم عمران خان نے  پاکستان اسٹریم گیس پائپ کی اہمیت کا اعادہ کیا اور توانائی سے متعلق منصوبوں میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا، وزیراعظم نے روس کے پاکستان اسٹریم گیس پائپ لائن کو فلیگ شپ اقتصادی منصوبہ قرار دیا، وزیر اعظم نے خطے کے امن و استحکام کو لاحق خطرات کو بھی اجاگر کیا، اس کے ساتھ ہی وزیراعظم نے خطے میں توازن کے اقدامات پر بھی زور دیا۔عمران خان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے عالمی سطح کے ہر فورم پر اسلامو فوبیا کے متعلق آواز اٹھائی اور ایسا دورہ روس میں بھی ہوا جب انہوں نے روسی صدر سے گفتگو کرتے ہوئے اسلاموفوبیا سے متعلق مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا، وزیراعظم عمران خان نے مسلمانوں کے احساسات اور حضور کریم  ؐسے مسلمانوں کی محبت سمجھنے کے صدرپیوٹن کے احساس کو سراہا۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بین المذاہب ہم آہنگی اور تمام مذاہب کا احترام معاشروں میں امن اور ہم آہنگی کے لیے ناگزیر ہے۔وزیراعظم نے روس سے طویل المدتی،کثیرجہتی تعلقات استوارکرنے کے عزم پر زور دیا، وزیراعظم نے انسانی بحران سے نمٹنے اور افغانستان میں ممکنہ اقتصادی بحران روکنے پر بھی زور دیا۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان مستحکم اور پْر امن افغانستان کے لیے عالمی برادری کے ساتھ مل کرکام کرتا رہیگا۔وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے مابین ملاقات کے حوالے سے روسی وزارت خارجہ نے زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں، یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ملاقات میں پر اسراریت کے عنصر کو عالمی سطح پر تقویت مل رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس پر سب سے زیادہ ’’مروڑ‘‘ حسب توقع امریکہ کو اٹھ رہے ہیں۔ اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ڈپرائس نے کہا ہے کہ امریکا نے پاکستان کو روس کے یوکرین پر حملے کے حوالے سے اپنا موقف بتا دیا ہے،عمران خان کے دورہ روس سے اچھی طرح آگاہ ہیں، روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے منصوبوں کیخلاف آواز اٹھانا ہر ملک کی ذمے داری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے انہیں جنگ کے حوالے سے سفارت کاری کو آگے بڑھانے کی اپنی کوششوں سے متعلق بھی بتادیا ہے۔ بریفنگ کے دوران ایک رپورٹر کی جانب سے نیڈ پرائس سے پوچھا گیا کہ وزیراعظم عمران خان کے دورے کی ٹائمنگ سے متعلق محکمہ خارجہ کا تجزیہ کیا ہے۔ جس پر ترجمان نے کہا کہ امریکا اس دورے کے بارے میں یقینی طور پر آگاہ ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دنیا بھر کے ہر ذمہ دار ملک کی ذمہ داری ہے کہ وہ روسی صدر کے ذہن میں یوکرین سے متعلق منصوبے پر اپنی تشویش کا اظہار کرے اور اس پر اعتراض کرے۔ نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ امریکا، پاکستان کے ساتھ اپنی دیرینہ شراکت داری اور تعاون کو امریکا کے مفادات کیلئے اہم سمجھتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا امریکا سمجھتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کا دورہ روسی صدر کے اقدام کی بالواسطہ توثیق ہے، اس پر نیڈ پرائس نے کہا کہ یہ سوال رپورٹر کو پاکستانی حکومت سے پوچھنا ہوگا کہ اس کا ارادہ کیا ہے۔ میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ غیر ملکی ہم منصبوں کے دوسرے ملک کے سفر کی ٹائمنگ کے بارے میں کوئی اندازہ پیش کر سکوں۔
افواہ ساز اور غیر سنجیدہ طبقوں میں روس اور یوکرین کی موجودہ کشیدگی کو تیسری عالمی جنگ کی شروعات قرار دیا جا رہا ہے جو میرے خیال میں انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے رواں ماہ کے اوائل میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ’ تیسری عالمی جنگ تب ہوگی جب روسی اور امریکی فوجی ایک دوسرے پر بندوقیں تانیں گے‘۔حالات بتا رہے ہیں کہ روس اور یوکرائن تنازعے سے پاکستان کا براہ راست کچھ لینا دینا نہیں، پاکستان سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد سے امریکی کیمپ میں رہا ہے اور اس لحاظ سے وزیراعظم عمران خان کے اس دورے کو اس تاریخی سمت میں تبدیلی کی علامت کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔یہ اس جانب بھی ایک اشارہ ہے کہ پاکستان اب کسی ایک ملک سے جڑنے کی بجائے کثیر ملکی پالیسی میں دلچسپی رکھتا ہے۔خاص طور پر اپنے خطے کی بڑی طاقتوں سے اس امید پر تعلقات کو بڑھانا چاہتا ہے تاکہ تجارت اور توانائی کی راہداری کے طور پر اپنی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے اپنی معیشت میں بہتری لا سکے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے پاکستان لوٹتے ہی  امریکی فیڈرل ریزرو بورڈ نے پاکستان کے سرکاری بینک پر 9 ارب 70 کروڑ روپے کا جرمانہ کردیا ہے جب کہ بورڈ نے انسداد منی لانڈرنگ پروگرام میں بہتری کا بھی مطالبہ کیا ہے اور حکم نامے کے 60 روز کے اندر قابل قبول تحریری پروگرام جمع کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

ای پیپر دی نیشن