نور مقدم کیس… تکمیل انصاف ابھی باقی ہے 

نور مقدم قتل کیس میں ٹرائل کورٹ نے فیصلہ سنا دیا ، مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو موت کی سزا سنا دی گئی ہے ، لیکن ابھی آدھا انصاف ہوا ہے، اسکی تکمیل تب ہو گی جب مجرم کی پھانسی کی سزا پر عمل ہو گا اور اسے قانونی  فیصلے کے مطابق گردن میں پھندا ڈال کر لٹکایا جائے گا تاوقتیکہ اس کی موت واقع نہیں ہو جاتی۔ پھانسی دینے کا یہ طریقہ قانون میں درج ہے اسی لیئے ایڈیشنل سیشنز جج نے اپنے حتمی فیصلے میں اسکا فصاحت سے ذکر کیا ۔ اگرچہ یہ موت اس قاتل کے لیئے اتنی تکلیف دہ نہیں ہو گی جتنی تکلیف ، اذیت و بربریت کے ساتھ اس نے مقتولہ کو قتل کیا تھا ، لیکن قانون کے مطابق قاتل چاہے کتنا ہی سفاک کیوں نہ ہو اسے موت کی سزا ایسے ہی دی جاتی ہے ، ہمارا ضابطہ فوجداری اور جیل مینوئل میں یہی طریقہ درج ہے ورنہ جسطرح سے اس مجرم نے مقتولہ کو قتل کیا اس کے بدلے میں تو اسے مارنے سے پہلے زندہ رکھ کر وہ تمام اذیت و تشدد پہنچانا چاہیئے تھا جسکا یہ درندہ صفت شخص خود مرتکب ہوا تھا۔ جس کرب، درد، اذیت و خوف سے مقتولہ گزری ہو گی ان تمام کیفیات سے بھی اس مجرم کو گزارنا چاہیئے تھا ، لیکن قانون میں پھانسی دینا ہی ذیادہ سے ذیادہ سزا ہے کوئی بھی فیصلہ ساز جج اس قانون سے آگے نہیں نکل سکتا۔ پھانسی سے ذیادہ سزا اس کے اختیار میں نہیں ہو تی ورنہ انسانی جان و عصمت سے کھیلنے والے بھیڑیوں کو مارنے سے پہلے دردناک سبق سکھایا جاتا۔ پھر بھی انصاف ابھی آدھا ہوا ہے، کیونکہ مجرم ابھی اپنی سزا کو عدالت عالیہ میں چیلنج کرنے کا قانونی حق رکھتا ہے ، وہ یقینی طور پر اپنا یہ حق استعمال کرے گا ۔ وقوعہ 20جولائی 2021کوہوا تھااور 24فروری2022کو فیصلہ سنایا گیا یعنی سات ماہ کے عرصہ میں ابتدائی انصاف ملا۔ہمارے کریمینل جسٹس سسٹم میں انصاف کے تقاضوں کے نام پر جو قانونی موشگافیاں، خامیاں اور چالاکیاں دوران ٹرائل سامنے آتی ہیں ان میں خاصہ وقت درکار ہوتا ہے ۔ بظاہر تو نور مقدم کیس قانون کی زبان میں ایک open and shut caseتھا ، جس میں اتنا وقت نہیں صرف ہونا چاہیئے تھا لیکن ظابطہ فوجداری میں درج سہارے اور سہولیات ایک جانب وکلاء کو مدد فراہم کرتے ہیں تو دوسری جانب انصاف کی فراہمی کو مشکل بنا دیتے ہیں۔ مجرم ظاہر جعفر نے دوران ٹرائل کیا کیا ڈرامے نہیں کیئے ، کبھی پاگلوں کی ایکٹنگ کرتا اور اسکے وکیل درخواست دیتے کہ جناب اسکا دماغی معائنہ کرایا جائے (تاکہ اسے پاگل اور ذہنی مریض قرار دیکر سزا سے بچایا جا سکے)، ظاہر جعفر جو کہ اپنے جرم سے ایک انتہائی شاطر، مکار، درندہ صفت ثابت ہوا تھا اس نے ٹرائل کے ہر مرحلے پر اپنے وکیل کی ہدایات پر بہترین اداکاری کی، کبھی کمرہ عدالت میں اول فول بکتا، کبھی چیخ و پکار اور شوروغوغا کرتا ، کبھی خودکلامی کرتا تاکہ جج صاحب کو یقین دلا سکے کہ اسکا دماغی توازن ٹھیک نہیں ، کبھی پولیس والوں سے ہاتھا پائی کرتا  تو اسے سٹریچر پر ڈال کر عدالت لانا پڑتا حالانکہ جیل کے ڈاکٹر کی رپورٹ کے مطابق یہ بالکل صحتمند اور ہٹا کٹا تھا، صرف کمرہ عدالت میںآنے کے بعد اسکی ایکٹنگ شروع ہوتی ۔ لیکن ایڈیشن سیشنز جج عطا ربانی ان ہتھکنڈوں سے ذرا مرعوب نہیں ہوئے ، وہ method in madness سے واقف تھے اس لیئے قانون کے مطابق میرٹ پر اپنا فیصلہ سنا دیا ورنہ وکیل دفاع تو اس کیس کو کسی اور رخ پر لے کر جانا چاہتے تھے۔ یہاں تک کہ ظاہر جعفر جو کہ امریکی شہریت کا بھی حامل ہے اس نے اپنی گرفتاری کے بعد امریکی سفارتخانے سے بھی رابطہ کر لیا اور ان سے اپنے شہری کی مدد کو آنے کی درخواست کی ۔امریکی سفارتخانے کے ایک افسر کی ظاہر جعفر سے دوران قید ملاقات بھی کروائی گئی لیکن یہ سب  ہتھکنڈے بے سود ثابت ہوئے ۔اور قانون نے اپنی راہ خود بنائی ۔ یقینی طور پرنور مقدم کے والدین کے لیئے یہ فیصلہ کسی قدر سکون و اطمینان کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ انکے غم کا بھی ایک حد تک ازالہ کرے گا۔  لیکن انصاف ابھی مکمل ہونا ہے ، انصاف کے تقاضے  ایسے ہیں کہ ایک عمر صرف ہوجاتی ہے تو بھی یہ تقاضے پورے نہیں ہوتے ، اب ہائی کورٹ میں اگر اپیل جائے گی تو وہاں بھی اگرچہ ٹرائل تو نہیں ہو گا لیکن فریقین کے وکلاء کے دلائل ، التواء کے لیئے حیلے اور بہانے اور قانونی پیچیدگیوں کا سہارا لیا جائے گا ، اپیل کی سطح پر فیصلہ سازی ذیادہ وقت طلب نہیں ہوتی لیکن پھر بھی اعلی عدلیہ پر مقدمات کا بوجھ اتنا ہوتا ہے کہ تاخیر ہوتی رہتی ہے۔ ہائی کورٹ میں اگر radical approachکیساتھ بھی فیصلہ دے دیا جائے تو اسکے بعد سپریم کورٹ کاآخری مرحلہ سامنے آتا ہے جہاں اگرچہ فوجداری اپیلوں کو ترجیحی بنیادوں پر سنا جاتا ہے لیکن وہاں بھی پچاس ہزار سے زائد مقدمات زیرالتواء ہیں جسکے بوجھ میں اکثر انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہوتی ہے فیصلہ سازی کا عمل سست ہوتا ہے اور یوں ان تمام مراحل میں ہونے والے تاخیر مجرم کو قانون کی گرفت سے بچنے کے لیئے مواقع نہیں تو کم از کم وقت بہت فراہم کرتی ہے ، ایسے مجرم جو مالدار اور با اثر ہوں وہ تو اس تاخیر کا فائدہ اٹھا کر موت کا کال کوٹھری سے بھی نکل کر دندناتے پھرتے ہیں ، کوئی مثتغیث کو خرید لیتا ہے تو کوئی اسکے وکیل کو۔انصاف کی مکمل فراہمی میں ہونے والی تاخیر میں انصاف کی راہ  تکنے والے بھی حوصلہ ہار بیٹھتے ہیں اور یوں تاخیری حربے مجرمان کے حق میں بار آور ثابت ہوتے ہیں ۔ عدالتی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جہاں پھانسی کا کال کوٹھری میں رہنے والا مجرم procedural delay کا فائدہ اٹھا کر قید سے آزاد ہو کر پھر معزز شہری بن جاتا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ انصاف کی فراہمی کے عمل میں غیر ضروری تاخیر کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ کوئی با اثر اور با ثروت مجرم مدعی کو خریدنے کا نہ تو موقع پا سکے اور نہ ہی وقت۔ہمارے نظام میں قصاص کے نام پر جس طرح سے دباو ڈال کر معافی نامہ خریدا جاتا ہے اس بد نیتی سے سب واقف ہیں ۔عدالتی تاخیر کے باعث کسی بھی لاچار مدعی کے صبر کا پیمانہ جب لبریز ہو نے لگے تو اسے قصاص جیسے معاوضے پر راضی ہونے کے لیئے دباو ڈالا جاتا ہے ، اور دباو میں لیئے جانے والے اس فیصلے کو قانون اور دین کی منشاء کا نام دیا جاتا ہے ، حالانکہ دین کی اولین منشاء تو جان کے بدلے جان ہے، قصاص صرف تب ہی قصاص کہلائے گا جب مدعی اسے قبول کرنے میں آزاد، نیک نیت  ہو اور اس قصاص کو انصاف سمجھے، ورنہ دھونس، جبر اور دباو میں  قبول کرایا اور کیا جانے والا قصاص قانونی اعتبار سے تو انصاف ہوسکتا ہے لیکن شرعی اعتبار سے قطعی نہیں ۔نور مقدم کیس میں بھی انصاف کی تکمیل اس دن ہو گی جب مجرم کو گلے سے پھانسی کے لیئے لٹکایا جائے گا تاوقتیکہ اس کی موت واقع ہو جائے، اس سے پہلے تک تمام عمل آدھا انصاف ہے اور بقیہ انصاف کے راستے میں قانونی پیچیدگیاں، تاخیری ہتھکنڈے، دولت اور امارت کا اثر و رسوخ ، تعلقات کا ناجائز استعمال جیسی رکاوٹیں حائل ہیں جن میں سے سب سے بڑا فیکٹر مدعی کے ورثاء (والدین) کے صبر و استقامت کا امتحان ہے۔

ای پیپر دی نیشن