اس داستاںکے محرک میرے ہم جلیس ڈاکٹر منظور علی ویسریو ہیں، حال ہی میں جن کی کتاب ’’پاکستانی زبانیں اور بولیاں‘‘ منصہ شہود پر آئی، جس میں انھوں نے اَسّی پاکستانی زبانوں اور بولیوں کے مختصر تعارف، تاریخی پس منظر، لسانی جغرافیے اور زبان کی ادبی صورتِ حال کے علاوہ ان زبانوں کے معدوم ہونے کی وجوہات مثلاََ عالمگیریت، ہجرت، ذریعہ تعلیم اور ذرائع ابلاغ وغیرہ وغیرہ پر روشنی ڈالی اور قابلِ عمل تجاویز بھی دیں۔ پاکستانی زبانوں میں لسانی اشتراک اور روابط ان کا میدانِ کار ہے۔ اس سلسلے میں ان کی متعدد کتب منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔ تالیف میں پوٹھوہاری علیحدہ زبان نہیںبلکہ پنجابی زبان کے ایک لہجے کے طور پہ مرقوم ہے جو خطہء پوٹھوہار میں بولا جاتا ہے جبکہ پہاڑی کو بطورِ زبان تحریر کیا گیا ہے حالانکہ فاضل محققین اور مئورخین نے پہاڑی کو پوٹھوہاری زبان کا لہجہ قرار دیا ہے۔ لطیف کاشمیری ’خیابانِ مری‘ میں لکھتے ہیں: ’’مری کی زبان پوٹھوہاری زبان ہی کی ایک الگ شاخ ہے اور لب و لہجہ کے معمولی علاقائی تفاوت کے ساتھ برصغیر کے اکثر شمال مشرقی پہاڑی علاقوں میں بولی جاتی ہے‘‘۔ ’بن پھلواری‘ از افضل پرویز کے دیباچے میںاحمد سلیم رقم طراز ہیں: ’’پوٹھوہاری دھرتی جغرافیائی اعتبار سے بھی باقی پنجاب سے بڑی مختلف اور دلآویز ہے‘‘۔ جید محقق و نثار عزیز ملک اپنی کتاب ’پوٹھوہار‘ میں پوٹھوہاری شعر و ادب بارے کہتے ہیں: ’’پوٹھوہاری شعر و ادب میں تہوّر ہے شیرینی بھی۔ برہا کے گیت مٹیاروں کی زبان پر ہیں تو صوفی شاعروں کا کلام بھی پہروں ذوق و شوق کے ساتھ پڑھا اور سنا جاتا ہے‘‘۔ ’گلِ صحرا۔۔آغا ضیا‘ میں امجد اقبال کا خیال دیکھیے: ’’راول پنڈی اور گرد و نواح کے علاقوں میں جو زبان بولی جاتی ہے، اسے پوٹھوہاری کہتے ہیں۔ اس زبان کا تذکرہ ’تزکِ جہانگیری‘ میں بھی ملتا ہے‘‘۔ زبان کے حوالے سے حبیب شاہ بخاری اپنی کتاب ’’بھٹھوار‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’پوٹھوہاری زبان نہ صرف پوٹھوہار میں بولی جاتی ہے بلکہ پوٹھوہاریوں کی نمائندہ زبان ہے جو اپنی ہئیت ترکیبی، اپنی شیرینی اور اپنی لذت کی وجہ سے اپنی شناخت آپ ہے۔ یہ اپنی اصلی اور قدیم حالت میں موجود ہے جو کہ سنسکرت کا ہی ایک رُوپ ہے جسے خطہء پوٹھوہار کی اکثریت بولتی ہے بلکہ معمولی تغیر سے آزاد کشمیر کے علاقہ اندرہل، سہنسہ اور کوٹلی تک بولی جاتی ہے‘‘۔پنجابی اور پوٹھوہاری میں ٖفرق کے ضمن میں آپ مزید لکھتے ہیں ’’پنجابی درحقیقت دوآبہ کی زبان ہے، مرکزی لاہوری ٹکسالی پنجابی سے الگ ہے جبکہ جانگلی پنجابی ان دونوں سے مختلف ہے۔ پوٹھوہاری زبان خود مرکزی ٹکسالی زبان ہے‘‘۔ ان کے مطابق مغلیہ دور سے پوٹھوہار، صوبہ پنجاب میں شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ پوٹھوہار کو پنجاب کا اور پوٹھوہاری کو پنجابی کا ایک حصہ گردانا جاتا ہے۔ منشی چند امین نے اپنے سفرنامے مطبع 1859ء میں بھی لکھا کہ سلطان محمود غزنوی نے پوٹھوہار کو صوبہ کشمیر سے علیحدہ کر کے گکھر شاہ کو تفویض کیا تھا۔پروفیسر کرم حیدری اپنی کتاب ’’سرزمینِ پوٹھوہار‘‘ میں رقم طراز ہیں: ’’پوٹھوہار کے علاقے میں جو پراکرت بولی جاتی تھی، اس پر فارسی زبان کے عمل دخل سے پوٹھوہاری زبان وجود میں آئی، جو پراکرت بھی تھی، وہ سنسکرت کی ہی شاخ تھی۔مغلوں کے زمانے تک یہ زبان بیشتر ارتقائی مراحل طے کر چکی تھی اور اس کی ہئیت و ترکیب اس وقت تک متعین اور متشکل ہو چکی تھی۔ چنانچہ جہانگیر اپنی توزک میں جس زبان کو گکھڑوں کی زبان کہتا ہے ، وہ یہی پوٹھوہاری زبان ہی تھی‘‘۔’تاریخِ راولپنڈی‘ میں راجہ محمد عارف منہاس کے مطابق ’’اس خطہ کے نام کی مناسبت سے زبان اور ادب کا نام بھی پوٹھوہاری زبان و ادب ہے جو پنجاب کی دیگر زبانوں سے مختلف ہے‘‘۔ اس حوالے سے افضل پرویز اپنی کتاب ’بن پھلواری‘ میں لکھتے ہیں: ’’مختلف تاریخی شواہد کی رُو سے پوٹھوہار دریائے سندھ اور ہڈاسپس(جہلم) کا درمیانی علاقہ ہے۔ یہی علاقہ سندھ ساگر دوآب بھی ہے‘‘۔ ڈاکٹر محمد یٰسین ظفر اپنی کتاب ’پوٹھوہار دی پنجابی شاعری‘ میں پوٹھوہار کی لسانی و ادبی حدود یوں بیان کرتے ہیں: ’’مغرب سے دریائے سندھ، جنوب مشرق سے کوہستان نمک اور شمال مشرق سے آزاد کشمیر کا وہ علاقہ
جہاں کشمیری زبان کی حدود شروع ہوتی ہیں اور اس طرح اس میں یہ علاقے شامل ہوں گے‘‘۔ پوٹھوہار کی تاریخ بارے کرم حیدری خامہ فرسائی اس طرح کرتے ہیں: ’’تاریخی شواہد کے اعتبار سے بھی پوٹھوہار عام طور پر اسی علاقے کا نام رہا ہے جو دریائے جہلم اور دریائے سندھ کے درمیان واقع ہے۔ ہندوستان میں مغلوں کی آمد سے پہلے بھی اس علاقے کو پٹوار کے نام سے یاد کیا جاتا تھا‘‘۔ آپ مزید لکھتے ہیں: ’’آج کل کے پڑھے لکھے لوگ جو اس علاقے کی تاریخ سے بھی کسی قدر واقف ہیں، دریائے جہلم سے لے کر دریائے سندھ تک اور مری کی پہاڑیوں سے لے کر سون سکیسر کی پہاڑیوں تک کے علاقے کو پوٹھوہار مانتے ہیں۔
ان لوگوں کے نقطہء نظر کے مطابق آب وہوا، طبعی حالات، رسم ورواج اور لسانی ہم آہنگی بلکہ لوگوں کے مزاج اور کردار کی ہم رنگی کے اعتبار سے یہ تمام علاقہ ایک ہے۔‘‘۔ اس بارے میں’خیابانِ مری‘ میں لطیف کاشمیری کا خیال ملاحظہ کیجئے:’’پوٹھوہار کی قدیم تاریخ دراصل ٹیکسلا کی تاریخ ہے جو یونانی اور چینی مورّخوں کے مطابق دریائے سندھ اور دریائے جہلم کے درمیان کے پورے علاقے کی راجدھانی تھی۔ پوٹھوہار کے علاقے میں راولپنڈی، گوجرخان، کہوٹہ اور دریائے جہلم سے لے کر دریائے سندھ تک کے علاقے شامل تھے۔ مری کے پہاڑی سلسلوں سے سون سکیسر کے پہاڑی سلسلوں تک کا تمام درمیانی علاقہ بھی پوٹھوہار میں شامل تھا‘‘۔ مذکور آرا سے پوٹھوہار اور پوٹھوہاری زبان کا مختصر مگر جامع خاکہ سامنے آتا ہے،جس سے واضح ہوتا ہے کہ گھیبی، چھچھ، جہلمی، دھنی اور پہاڑی درحقیقت پوٹھوہاری زبان کے لہجے ہیں۔ پوٹھوہاری کے قدیم ادب میںلوک گیت، مثنوی کی طرز پر نظم، سی حرفیاں، ماہیے،دوہے اور چار بیتے شامل ہیں جبکہ جدید ادب میں حمد، نعت، سلام، منقبت، غزل، نظم، گیت، ہائیکواور نثر میں ناول، ڈرامہ، افسانہ، افسانچہ، خاکہ،کالم، ترجمہ اور تنقید ایسی اصناف میں تخلیقی و تحقیقی کام پوری تب و تاب کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ پوٹھوہاری قواعد کی کتب،قرآنِ مجید و مولانا رومؒ کی کہانیوں کے تراجم،سیرت النبیؐ، پوٹھوہاری لغات، علاقائی و عالمی ادب کے تراجم کے علاوہ پوٹھوہاری میں ڈرامے اور فیچرز بھی تواتر سے لکھے جا رہے ہیں۔پوٹھوہاری کی تقریباََ یک صد تصانیف و تالیفات منصہ شہود پر آ چکی ہیں۔ پوٹھوہاری جرائد مثلاَ چٹکا، چانن انٹرنیشنل، سنگی، سرگ اور پُرا میں مختلف النوع موضوعات کی حامل تحاریر شائع ہوتی ہیں۔ ’’پاکستانی زبانیں اور بولیاں‘‘ کی اشاعت پہ ڈاکٹر منظور ویسریو مبارک باد کے مستحق ہیں اور امیدِ قوی ہے کہ مورّخین و محققین سمیت تعلیمی و تحقیقی ادارے بھی پوٹھوہاری کو ایک مکمل ادبی زبان تصور کریں گے۔