ڈاکٹر سیّد معین الدین عقیل اُردو زبان و ادب کے نامورنقاد، محقق اور ادیب اپنی علمی، ادبی اور تعلیمی خدمات کی بدولت کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ انھوں نے گذشتہ پانچ دھائیوں سے اپنے آپ کو اُردو زبان و ادب کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا ہے۔ آپ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تاریخ، تہذیب اورادب کے ممتاز محقق، مصنف اور معلم ہیں جنھیں ان اوصاف کے باعث اندرون و بیرون ملک ایک غیر معمولی وقار و عزت اور شہرت حاصل ہے۔
ڈاکٹر سید معین الدین عقیل ایک صاحبِ نظر دانش ور اوراسکالر ہیں جنھوں نے دنیا کے متعدد ممالک کا سفر کیا اور عالمی شہرت و معیار کی جامعات، علمی و تعلیمی اداروں و کتب خانوں اور ان سے منسلک اسکالرز سے ملاقاتیں کیں اورتبادلہ خیال اور توسیعی و مہمان خطبات پیش کئے، تصنیف و تالیف کی مد میں اُردو اور انگریزی زبانوں میں آپ نے قریباً 85کتابیں تصنیف یا تالیف و ترتیب دیں او400 کے قریب تحقیقی مقالات، مضامین و ابواب اور مقدمات تحریر کیے جو عالمی معیار کے تحقیقی مجلّوں‘ قاموسوں‘کتابوں اوررسائل و جرائد میں شائع ہوئے۔ایک معتبر و ممتاز اسکالر، استاد اور علمی اداروں کا منتظم و ناظم ہونے کے باعث جن کی علمی و تصنیفی خدمات کا اعتراف نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بیرونِ ملک بھی کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب ملک و بیرونِ ملک کی متعدد جامعات اور علمی و تحقیقی اداروں سے بحیثیت رکن، مشیر یا شریکِ کار کے طور پر بھی منسلک رہے ہیں اوران حوالوں سے بھی آپ کو عزت و وقار حاصل ہے۔قومی سطح پر متعدد سرکاری ستائشوں اور اعترافات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر سید معین الدین عقیل کو شہنشاہِ جاپان کی جانب سے بھی اعلیٰ ترین سول اعزاز "Order of the Rising Sun, Gold Rays with Neck Ribbon"سے نوازا گیا ہے۔ ان کے علاوہ ایک ارمغانِ علمی (Festschrift)کا اعزاز بھی ان کو حاصل ہے، جو اپریل 2013ء میں عطا ہوا، بعنوان ’’جنوب مغربی ایشیاء کا علمی تناظر: تاریخ، تہذیب اورادب۔ ارمغانِ مقالات بہ پیش خدمت معین الدین عقیل‘‘ جسے اطرافِ عالم کے اسکالرز نے پیش کیا اور جسے ڈاکٹر جاوید احمد خورشید اور ڈاکٹر خالد امین نے مرتب اور ادارئہ معارفِ اسلامی کراچی نے 2016ء میں شائع کیا۔
پاکستان اور بھارت کی جامعات نے تاحال اپنے ایم۔ اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح کے متعدد تحقیقی مقالات میں ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کی حیات و خدماتِ علمی کو موضوعِ مطالعہ و تحقیق بنایا ہے اور یہ سلسلہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مطالعات کے لیے جاری ہے۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی تاریخ و تہذیب اور ادب کے موضوعات پرمشتمل 45ہزار سے زائد نادر و کمیاب کتابوں، محظوطات اور دستاویزات کا ذخیرہ ڈاکٹر عقیل کے ذاتی کتب خانہ میں موجود ہے۔ جن کا اسّی فیصد ڈاکٹر صاحب جاپان کی کیوتو یونیورسٹی کو ہبہ کرچکے ہیں جو ان کا زبان و ادبِ اُردو سے لگائو اور محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کی علمی و ادبی خدمات کا یہ ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ بلاشبہ تحقیق و تدریس گویا ڈاکٹر صاحب کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ابھی بھی اُن کا قلم تھمتا نہیں۔ حال ہی میں ڈاکٹر معین الدین عقیل نے نامور شاعر میر تقی میرؔ کے غیر مطبوعہ دیوانِ ہفتم کا سراغ لگایا ہے۔ اس سے قبل میر تقی میرؔ کے چھ دواوین کا ذکر تو زبان زدِ عام ہے۔ یہ وہی نسخہ ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تمام تر تلاش و تحقیق کے بعد بالآخر اپنی تاریخ میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گئے کہ اس دیوانچے میں دیوان ششم کے بعد سے لے کر وفات تک کا کلام شامل تھا۔ یہ نایاب ہے۔ آخر کار ڈاکٹر عقیل صاحب کی کاوشوں سے یہ دیوان بھی منظرِ عام پر آگیا۔ مختصر یہ کہ ڈاکٹر معین الدین عقیل ایک عہد ساز شخصیت ہیں جنہوں نے نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرون ممالک بھی اپنی خدمات سے وطنِ عزیز پاکستان کا نام روشن کیا ہے۔ ایسی شخصیات روز بروز پیدا نہیں ہوتیں۔ جہاں ڈاکٹر صاحب نے غیر ملکی سطح پر اتنے گرانقدر اعزازات حاصل کیے ہیں۔ میری وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خاںسے گذارش ہے کہ ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کو حکومتی سطح پر ملک کے سب سے بڑے اعزاز سے نوازا جائے۔ ڈاکٹر صاحب جیسی عظیم علمی و ادبی شخصیت کو اعزاز دینے سے موجودہ حکومت اور ملکی وقار میں بھی اضافہ ہو گا۔
٭…٭…٭