"چار ہزار کا پٹرول ڈال دیں" میری یہ آواز سنتے ہی وہ چونک گئی۔۔دو ہزار کا ڈلوائیے ۔۔گھی کا چھوٹا ڈبہ لیں۔میرے لئے چاکلیٹ کاسب سے چھوٹا پیکٹ لینا تھا۔چھوٹے سٹے سستے مل رہے تھے۔وہ لے لیتے ۔یہ ہر وقت کی کانٹ چھانٹ میری سمجھ سے باہر ہے ۔میں نے ایک دن چڑ کر کہا۔تمہیں تو خوش ہونا چاہئے کھلا خرچہ کرتا ہوں۔وہ میری بات کے جواب میں خاموشی سے قالین پر گرے چاول کے دانے چنتی رہی۔پھر کہنے لگی۔اماں ہمیشہ کہتی ہیں۔ایک گھر میں بچت ہمیشہ عورت کرتی ہے ۔چاہے میاں کی کمائی سو روپے ہو یا لاکھ روپیہ۔۔وہ۔ہمیشہ اک گلے میں کچھ نہ کچھ بچا لیتی ہے ۔۔میں نے بے ساختہ کہا" ہاں اور نجانے کیوں آج ہی بیس سال بعد کا منظر سوچتی رہتی ہے ۔"مکان کا کرایہ رکھ جائیے گا"وہ مسکراتے ہوئے کچن میں چلی گئی۔
آج اپنے کشادہ ذاتی مکان کے کھلے برآمدے میں نجانے کیوں مجھے وہی چاول کے دانے بکھرے نظر آئے جو وہ شاید ساری زندگی قالین سے اٹھاتی رہی تھی۔میں انکے قریب گیا تو وہ اس مکان کے پکے فرش کے اجلے مضبوط پتھر تھے ۔باہر بارش ہو رہی تھی۔لیکن میرے گھر میں بھیگے سورج کی گرمی تھی۔میرے بچے بیڈ منٹن کھیل رہے تھے ۔میں نے دور سامنے دیکھا۔میری ساری زندگی بچت کرتی بیگم چھتری تلے بچوں کی طرح کنگ سائز چاکلیٹ کھا رہی تھی ۔