102 سال قبل 1920ء سے شروع ہونے والی لڑائی حال ہی میں اپنے عروج کو پہنچ گئی ہے۔ ہم روس اور یوکرائن کے درمیان ہونیوالی جنگ کے ماضی کی بات کررہے ہیں۔ 1920ء میں یوکرائن سوویت یونین کا حصہ بنا۔ سوویت یونین پر زوال کا وقت آیا تو سب سے پہلے 16 جولائی 1990ء میں یوکرائن سوویت یونین کو خیرباد کہا اور ایک سال جدوجہد کر کے 24 اگست 1991ء کو یوکرائن نے خودمختار اور مکمل آزاد ریاست کا اعلان کر دیا مگر یہ بات اپنی جگہ موجود تھی کہ روس نواز یوکرائن کی 20 فیصد عوام یوکرائنی حکومت کے اس فیصلے پر نا صرف سراپا احتجاج تھی بلکہ پریشر گروپس بھی بنا رہی تھی۔ اس دوران روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ بھی جاری تھی۔ امریکہ نے روس کو یورپ کے راستے قابو کرنے کیلئے رومانیہ، لیتھوآنیا، پولینڈ کی سرحدوں پر ناصرف نیٹو فوج کھڑی کر دی بلکہ جدید ہتھیار بھی نصب کر دیے۔ ان ممالک میں یوکرائن کو تینوں اطراف سے گھیر رکھا تھا۔ ایک ہمسایہ ملک بیلا روس ایسا تھا جس کے روس کیساتھ اچھے تعلقات تھے۔
یوکرائن اور تمام یورپی ممالک روس کے مخالف سمجھے جاتے تھے۔ اوائل میں روس یوکرائن میں اپنی حمایت یافتہ حکومت بنانے میں کامیاب رہا۔ یہ سلسلہ 2014ء تک چلتا رہا جب روسی نواز یوکرائنی صدر وکٹر پنکووچ نے یورپی یونین سے الحاق کا معاہدہ منسوخ کر دیا اور یورپی یونین میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ اس پر یوکرائنی عوام شدید احتجاج پر اتر آئی۔ احتجاج اور جھڑپوں کا گراف اس قدر بلند تھا کہ روس کی سرحدوں پر تعینات افواج کو بھی نشانہ بنایا گیا جس پر وکٹر پنکووچ اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ روسی افواج پر حملوں کو بنیاد بنا کر روس نے کرائینیا پر چڑھائی کر دی اور اس پر نا صرف قبضہ کر لیا بلکہ مزید یوکرائنی ریاستوں میں علیحدگی پسند گروپوں کی پشت پناہی کر کے خانہ جنگی شروع کرا دی۔ ایک طرف تو روس اپنی افواج پر ہونے والے حملوں کا الزام مغربی ممالک پر لگا رہا تھا اور روس کے زیر اثر یوکرائنی علاقوں میں ہونے والی جھڑپوں میں خونریزی پر بھی روس کہہ رہا تھا کہ مغربی ممالک اس میں ملوث ہیں جبکہ دوسری جانب مغربی ممالک روس پر یوکرائن میں دراندازی الزامات عائد کر رہے تھے۔ اس لڑائی میں پندرہ ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے تھے اور بیس لاکھ سے زائد یوکرائنی نقل مکانی کرچکے تھے کہ اچانک فرانس نے یوکرائن میں موجود مسلح جتھوں اور پریشرگروپس سے مذاکرات کے ذریعے یوکرائن اور ان کے درمیان معاہدہ کرا دیا۔ یوکرائن نے دوبارہ الزام عائد کیا کہ روس کے زیر اثر عوام دوبارہ احتجاج کر رہے ہیں۔ آخر کار امریکہ روس سے مذاکرات کرنے لگا۔ مذاکرات چل ہی رہے تھے کہ یورپی یونین نے یوکرائن کو یورپ میں شامل کرنے کیلئے اقدامات شروع کر دیے۔ روس نے یوکرائن کے یورپ کے شامل ہونے کے ڈر سے اپنے مسلح جتھوں کے ذریعے دو ریاستوں کو آزاد کرا کے تسلیم بھی کر لیا۔ اندر کی بات یہ ہے کہ روس یوکرائن کو یورپی یونین سے باہر رکھ کر اپنے زیر تسلط کر کے اپنی سرحدوں کو محفوظ سمجھتا ہے۔ اگر یوکرائن یورپی یونین میں شامل ہو گیا تو نیٹو فورسز روس کے سرحدوں آن کھڑی ہوں گی۔
اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو روس اور یوکرائن کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں بنتا۔ روس ایٹمی پاور ہے اور اس کے پاس ملٹری آپریشنز کے وسیع ذرائع موجود ہیں جبکہ یوکرائن روس کی جنگی صلاحیتوں کے سامنے ابھی نامولود ہے۔ روس کے 15سو سے زائد جنگی طیارے یوکرائن کے خلاف اڑانے بھرنے کیلئے تیار ہیں جن کا جواب دینے کیلئے یوکرائن کے پاس صرف 98 جنگی طیارے ہیں۔ ساڑھے پانچ سو روسی ہیلی کاپٹرز کے سامنے 34 یوکرائنی ہیلی کاپٹرز کیا مقابلہ کرینگے؟12 ہزار سے زائد روسی ٹینک یوکرائنی سرحدوں کی جانب گامزن ہیں۔ 26 سو یوکرائنی ٹینک کیسے روسی ٹینکوں کا مقابلہ کریں گے؟ 12 ہزار 3 سو روسی توپوں کو یوکرائن کی سرحد پر نصب کیا جا رہا ہے جن کے گولوں کا جواب 75 سو یوکرائنی توپیں دیں گی۔ یوکرائنی اور روسی فوج کی تعداد اور استعداد میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی ایٹمی طاقت روس 6 ہزار سے زائد جوہری ہتھیار رکھتا ہے۔ اگر مغربی ممالک اور امریکہ نے جنگ بندی کرانے کیلئے عملی طور پر اقدامات نہ کیے تو یوکرائن بہت جلد روس کے قبضے میں ہوگا۔ یوکرائنی صدر اس بات کا اظہار بھی کر چکے ہیں کہ امریکہ اور یورپی یونین روس سے بچانے کیلئے عملی طور پر کوئی اقدامات نہیں کر پا رہے۔ روس کی جب بھی جنگ ہوئی ہے پاکستانی سیاست دانوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے روس امریکہ جنگ میں سیاسی کردار ادا کیا تو امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھایا اور پھر نتائج سب کے سامنے تھے۔ اس کے بعد جو حکومت آئی اس نے روس کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا۔ اگر ہم افغان وار کی بات کریں تو سابق صدر پرویز مشرف نے صورتحال کو بھانپتے ہوئے سیاسی کردار ادا کرنے کی بجائے امریکہ کے احکامات پر لبیک کہا اور وہ امریکہ افغان وار میں امریکی پارٹنر بن کر کئی سال اقتدار پر براجمان رہے۔ اب وزیراعظم عمران خان بھی عجیب و غریب صورتحال کا شکار ہیں کہ جس دن روس کے مہمان تھے اسی دن روس نے یوکرائن پر حملہ کر دیا، ویسے تو انہوں نے ابھی تک صورتحال کی تشویش کو مدنظر رکھا ہوا ہے اور کوئی لوزبال نہیں پھینکی۔ اگر وہ صرف ایک جملہ روس میں ادا کر دیتے کہ ’روس کے یوکرائن پر حملے کی حمایت کرتے ہیں‘ تو ہمیں اس نازک صورتحال میں مغربی ممالک سے بچانے والا کوئی نہ ہوتا۔ عمران خان نے موقع کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی ’گرے لسٹ‘ سے ’بلیک لسٹ‘ میں جانے سے بچا تو لیا ہے مگر روس کے یوکرائن پر حملے اور اپنے روسی دورے کو جسٹیفائی کرنا ان کیلئے پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہوگا۔ اگر وزیراعظم امریکی موقف کی حمایت کریں گے تو روسی دورہ بے بنیاد ہو جائیگا اور اگر روس کے اقدام کی حمایت کریں گے تو امریکہ بہادر کا غضب سہنا پاکستان کیلئے مشکل ہوگا کیونکہ ہماری معیشت آئی ایم ایف کے چنگل میں بری طرح جکڑی ہوئی ہے۔