پاکستان سپر لیگ کے دلچسپ مقابلے ختم ہونے کو ہیں کل ساتویں ایڈیشن کا فائنل کھیلا جائے گا۔ اس مرتبہ پی ایس ایل مقابلوں میں شائقین کا جوش و خروش دیدنی رہا گوکہ آغاز میں کرونا کی وجہ سے کراؤڈ کے لیے سہولت نہیں تھی لیکن دوسرے مرحلے کے میچوں میں قذافی سٹیڈیم سے دنیا کو پاکستان کا حقیقی رنگ دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ یہ وہ رنگ ہے جس سے شائقینِ کرکٹ برسوں محروم رہے، یہ وہ رنگ ہے جسے دنیا دیکھ نہیں سکی لیکن اس مرتبہ لیگ کے مقابلے بلاتعطل ہونے کی وجہ سے ناصرف سٹیڈیم آنے والوں کی دلچسپی برقرار رہی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ٹیلیویڑن پر کرکٹ میچز سے لطف اندوز ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ انتظامات کے اعتبار سے بھی ساتواں ایڈیشن نسبتاً بہتر رہا۔ اسے کامیاب بنانے میں پاکستان کرکٹ بورڈ، قانون نافذ کرنے والے اداروں، حساس اداروں، رینجرز، پولیس، ضلعی انتظامیہ، ایل ڈبلیو ایم سی سمیت لیگ سے جڑے ہر شخص نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ بہت اچھی پچز تیار کرنے پر گراؤنڈ سٹاف بھی مبارکباد کا مستحق ہے کیونکہ اگر رنز کم بنتے ہیں تو سب سے پہلے پچ بنانے والوں پر تنقید ہوتی ہے لیکن جب ایک میچ میں چار سو یا اس سے بھی زائد رنز سکور ہوں تو بیٹرز کے بہت اچھا کھیلنے کی باتیں ہوتی ہیں ان حالات میں پچز بنانے والے ماہرین کو بھلا دیا جاتا ہے۔ پھر بھی چند میچز میں ایسا ضرور ہوا جب رنز کم بنے تو سب سے پہلے گراؤنڈ سٹاف پر تنقید ہوئی۔ نیشنل سٹیڈیم اور قذافی سٹیڈیم میں گراؤنڈ سٹاف نے دن رات محنت کر کے لیگ کو شائقین کے لیے پرکشش بنایا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کو گراؤنڈ سٹاف کی حوصلہ افزائی ضرور کرنی چاہیے۔ مسلسل کئی برسوں کی محنت اور تکلیف کے بعد اب سٹیڈیم کے اطراف میں ٹریفک کی روانی بہتر ہوئی ہے۔ آئندہ برس اسے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ جہاں تک کرکٹ کے معیار کا تعلق ہے تو یہاں کچھ خدشات ضرور ہیں۔ مقامی کھلاڑیوں بالخصوص ایمرجنگ کیٹیگری میں غیر معمولی کھلاڑیوں کا سامنے نہ آنا پریشان کن ہے۔ جب کہ سینئر کرکٹرز کے بہتر متبادل کے حوالے سے بھی مستقبل میں مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آٹھویں ایڈیشن میں کئی سینئر کرکٹرز کے لیے اپنی جگہ برقرار رکھنا مشکل ہو گا۔ اس خلا کو پر کرنا مشکل کام ہے اس پہلو کو گذشتہ چند برسوں میں نظر انداز کیا گیا یہی وجہ ہے کہ پاکستان سپر لیگ کے ساتویں ایڈیشن کے دوران سینئر کرکٹرز ہی نمایاں رہے ہیں۔ ایک دو اننگز یا ایک دو میچوں میں اچھی باؤلنگ سے کسی ہو سینئرز کا متبادل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ لیگ میں کرکٹ کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کیا حکمت عملی اختیار کرتا ہے۔ لیگ میں صرف چھ ٹیمیں ہیں اور ہم چھ سپیشلسٹ وکٹ کیپرز کھلانے کے قابل نہیں ہیں، محمد رضوان پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں، کامران اکمل کا کیریئر ختم ہو چکا جبکہ سرفراز احمد کے لیے واپسی مشکل ہے اس کے بعد ایسا ٹیلنٹ نظر نہیں آتا جسے ان تجربہ کار کھلاڑیوں کا متبادل قرار دیا جا سکے، مڈل آرڈر بیٹرز نظر نہیں آ رہے، کوئی آف سپنر نہیں ہے، کوئی متاثر کرنے والا لیگ سپنر نہیں ہے، باؤلنگ آل راونڈرز نہیں ہیں، جہاں ہم لیگ سے بہت خوش ہو رہے ہیں وہیں ان پہلوؤں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ایک ٹیم کا اضافہ کرنا پڑا تو کیا ہمارے پاس اتنے کھلاڑی ہیں کہ ٹیم کا اضافہ بھی ہو جائے اور کھیل کے معیار پر بھی فرق نہ پڑے۔ اگر تفریح کی بات کی جائے تو پاکستان سپر لیگ نے کسی حد تک بسنت کی کمی کو پورا کیا ہے۔ ماضی میں ان دنوں بسنت کے حوالے سے خاصا جوش و خروش پایا جاتا تھا اب اس کی جگہ پاکستان سپر لیگ نے لے لی ہے۔ لاہور میں ہونے والے میچوں کے دوران شائقین کی بڑی تعداد میں سٹیڈیم آمد اس بات کا ثبوت ہے کہ زندہ دلان لاہور کھیل سے بیپناہ محبت کرتے اور پسندیدہ کھلاڑیوں کو اپنے سامنے کھیلتے ہوئے دیکھنے کے لیے ضروری کاموں کو چھوڑ کر بھی گراؤنڈ کا رخ ضرور کرتے ہیں۔ لاہور قلندرز کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر عاطف رانا کہتے ہیں کہ قذافی سٹیڈیم میں شائقین کرکٹ میں بڑی تعداد میں موجودگی نے یہ ثابت کیا ہے کہ لاہوری اچھے میزبان ہیں، ہم لاکھوں کی تعداد میں سٹیڈیم آنے واپے پرستاروں کے مشکور ہیں، یہ لاہوریوں کی کرکٹ اور اپنی ٹیم لاہور قلندرز کے ساتھ محبت ہے۔ ان میچوں کے ذریعے لاہور نے ایک مرتبہ پھر دنیا کو محبت، امن، دوستی اور پیار کا پیغام دیا ہے۔ لاہور قلندرز سال بھر اپنے شائقین کے لیے مختلف سرگرمیوں میں مصروف رہتی ہے تاکہ پرستاروں کو برانڈ کے ساتھ تعلق کو مضبوط بنایا جائے، کھیل میں دلچسپی کو بڑھایا اور نوجوانوں کے لیے نئے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔ اس مرتبہ تو لاہور میں جشن کرکٹ منعقد ہوا ہے اور لاہور کو اب روشنیوں کا شہر بھی کہا جا سکتا ہے۔ ابھی تو سٹیڈیم کی گنجائش کم ہے یہ زیادہ ہوتی تو بھی "ہاؤس فل" ہوتا۔ ہم لاہور میں جشن کی روایات کو زندہ رکھنے کے لیے سٹینڈز میں ڈھول بجانے والوں کو لے کر آئے، عمران خان انکلوڑر کی برانڈنگ کی گئی، لاہور میں ہر جگہ پی ایس ایل کا رنگ نظر آیا یہی وہ حکمت عملی تھی جس کے بعد ہر میچ میں ہزاروں شائقین سٹیڈیم تک آئے اور لاہور قلندرز کے میچوں میں تو سٹیڈیم میں بیٹھنے کی جگہ باقی نہ رہی۔ یہ شائقین کی محبت ہے کہ اس مرتبہ ٹیلیویڑن ریٹنگ کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں، سٹیڈیم ہی نہیں ٹیلیویڑن پر دیکھنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ساتھ ملا کر انہیں لیگ سے جوڑا، ایک میچ پولیس کے شہدا کے نام کیا، ایک میچ میں ایس او ایس ویلج کے بچوں کو سٹیڈیم لے کر آئے، گذشتہ روز لاہور کی صحافی برادری کو خراج تحسین پیش کیا۔ لیگ کا اولین ماڈل ہوم اینڈ اوے کی بنیاد پر تھا اگر ہم آئندہ برس اس طرح میچز کروانے میں کامیاب ہوئے تو یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہو جائے گا کہ دنیا کی نمبر ون لیگ کون سی ہے۔ ابھی ٹیموں کی تعداد کو بڑھانا مشکل ہے۔ مالی اعتبار سے بھی یہاں تحفظات پائے جاتے ہیں جبکہ ملکی و غیر ملکی کھلاڑیوں کی دستیابی بھی اہم مسئلہ ہے۔ سب سے زیادہ خوش آئند چیز مسلسل مقابلوں کا انعقاد ہے۔ میچز کا سلسلہ منقطع ہونے سے دلچسپی میں واضح طور پر کمی آتی ہے۔ چیئرمین کرکٹ بورڈ رمیز راجہ اور ان کی ٹیم بھی مبارک باد کی مستحق ہے بالخصوص پی ایس ایل کے پراجیکٹ ڈائریکٹر سلمان نصیر نے دن رات کام کر کے ایونٹ کو کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ میں پاکستان آ کر کھیلنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں کا بھی مشکور ہوں۔ لاہور قلندرز کے پرستاروں نے مشکل وقت میں ٹیم کا ساتھ نہیں چھوڑا اس سیزن میں کھلاڑیوں نے بھی بہترین کرکٹ سے لاکھوں شائقین کو سٹیڈیم آنے پر مجبور کیا۔ سینئر سپورٹس جرنلسٹ، اینکر پرسن مرزا اقبال بیگ کہتے ہیں کہ کراؤڈ کے اعتبار سے ساتواں ایڈیشن بہت کامیاب رہا بالخصوص لاہور میں ہونے والے میچز میں کراؤڈ کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ کرونا کی وجہ سے کراچی کے شائقین بھرپور انداز میں لطف اندوز نہ ہو سکے لیکن غیر ملکی کھلاڑیوں کے حوالے سے کرکٹ بورڈ کو بہتر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کیونکہ ساتویں ایڈیشن میں نمایاں غیر ملکی کھلاڑیوں کی کمی محسوس کی گئی ہے۔ انتظامات بھی گذشتہ برس سے بہتر تھے کرونا کا حملہ ضرور ہوا لیکن مقابلے نہیں رکے۔ 2023 میں مقابلے کم از کم چار شہروں میں کروانے چاہییں۔ لاہور اور کراچی کے ساتھ کم از کم دو سٹیڈیمز کا اضافہ لیگ کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ سینئر سپورٹس جرنلسٹ عالیہ رشید کہتی ہیں کہ گوکہ لیگ اچھے انداز میں ہوئی لیکن پھر بھی آئندہ برس کے لیے نمایاں غیر ملکی کھلاڑیوں کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسی طرح مقامی کھلاڑیوں کی سلیکشن پر بھی حقیقت پسندانہ سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ شرجیل خان کی فٹنس اور کارکردگی سب نے دیکھ لی، محمد حفیظ اور وہاب ریاض کو بھی سب نے دیکھ لیا اسی طرح دیگر قومی کھلاڑیوں کی خراب کارکردگی بھی سوالیہ نشان ہے۔ کھیل کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے کھلاڑیوں کے معیار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ میچز ایسے ہوئے جہاں گیند غیر معمولی طور پر نیچے رہتی رہی، گیند رک کر آتا رہا، ایسی پچز جہاں گیند نیچی رہے، شاٹس نہ لگیں ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ میں ایسی پچز کا کیا کام ہے۔ سابق کپتان مصباح الحق نے بھی اس مسئلے پر بات کی ہے۔ رمیز راجہ پچز کے معیار پر بہت حساس ہیں اس مسئلہ حل ہونا چاہیے۔ ہمیں باونڈریز کو بھی بڑا کرنا پڑے گا ساٹھ پینسٹھ کی باونڈری سے ہم کیا معیار مقرر کر رہے ہیں۔ ٹکٹوں کے لیے آن لائن کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے کیونکہ ٹکٹوں کی آن لائن فروخت میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے تعلیمی اداروں میں بھی بندوبست کیا جانا چاہیے۔ شائقین کی سٹیڈیم تک آمد کو مزید آسان بنایا جائے، سٹیڈیم میں کھانے پینے کی چیزوں کی دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔