جیل بھرو تحریک کے حوالے سے کافی دن پہلے ان صفحات پر لکھا تھا کہ جیل بھرو تحریک بھی پی ٹی آئی کے ماضی کے فیصلوں کی طرح غلط ثابت ہو گا یہ جیل جائیں گے اپنی مرضی سے لیکن وہاں سے نکلنا ان کے بس میں نہیں ہو گا۔ جیل سے نکلنا تو بہت دور کی بات ہے یہ تو جیل کے راستے میں ہی رونے لگے، بعض تو گرفتاریاں دینے کے بجائے بھاگ نکلے، کچھ غائب ہوئے، کچھ نے انکار کیا اور بہت سے ایسے ہیں جن کے اہل خانہ نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بعض کے اہل خانہ کی طرف سے یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فلاں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے، بعض نے بازیابی کی درخواست کی ہے۔ ان لوگوں نے نجانے کیا سمجھا تھا کہ جیل نہیں شالامار باغ لے جایا جائے گا۔ جیل جاتے ساتھ ہی بیماریاں نمودار ہونا شروع ہو گئی ہیں، کوئی کہہ رہا ہے کہ زبردستی گرفتار کر لیا گیا یے، کوئی کہہ رہا ہے کہ انہوں نے سی سی پی او دفتر لے کر جانا تھا نجانے کہاں لے آئے ہیں۔ گرفتاریاں دینے والوں کی اکثریت نے جیل کا صرف نام ہی سنا تھا انہوں نے تو ماضی میں اپوزیشن بھی سہولت کے ساتھ کی تھی۔ یہ والی سختیاں برداشت کرنا لاڈلوں کے بس کی بات ہرگز نہیں ہے۔ ویسے تو جتنے لوگ جیل گئے ہیں اور ان کے پیچھے سے بازیابی کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا گیا ہے ان بہادروں کو تمام درخواستیں واپس لینی چاہییں اور سب سے بڑھ کر پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو بھی گرفتاری دینی چاہیے۔ وہ لیڈر ہیں انہیں گرفتاریوں کے اس زمانے میں فرنٹ سے لیڈ کرتے ہوئے خود جیل جانا چاہیے۔ جماعت کی قیادت اور کارکنان کو جیلوں کا راستہ دکھا کر خود گھر بیٹھے رہنا کسی بھی عوامی قائد کو ہرگز زیب نہیں دیتا۔ غریب کارکنوں کو ڈنڈے کھانے کے لیے تنہا چھوڑ دینا مناسب عمل نہیں ہے۔ اس لیے انہیں خود بھی جیل جانا چاہیے اور ساری قیادت کو بھی جیل لے کر جانا چاہیے اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر یہ جیل بھرو نہیں غریب کو جیل میں بھرو تحریک قرار پائے گی۔ پی ٹی آئی کے جیل جانے والوں کو اب ضمانت اور بازیابی کی درخواستوں کا کھیل نہیں کھیلنا چاہیے۔ ہمیں اس جیل میں رکھیں، کمیں اس جیل میں رکھیں، ہمیں یہاں نہیں رکنا، کمین وہاں نہیں رکنا، ہمیں یہاں رکھیں، ہمیں وہاں رکھیں گرفتاریوں کے بعد بچوں اور نازک مزاج شہزادوں والا رویہ اختیار نہ کریں۔
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی نے کہا ہے کہ میں تو شاہ محمود قریشی سے ملنے آیا تھا تو مجھے بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بہاولپور میں جیل بھرو تحریک میں گرفتاری دینے والے اعظم سواتی اور محمد احمد مدنی کا طبی معائنہ کیا گیا۔ محمد احمد مدنی کو طبی معائنے کے بعد سینٹرل جیل پہنچایا گیا۔ سینیٹر اعظم سواتی کو طبی معائنے کے بعد ڈسٹرکٹ جیل رحیمیار خان روانہ کیا گیا ہے۔ اعظم سواتی کا کہنا تھاکہ میرا نام تو جیل بھروتحریک کی ویٹنگ لسٹ میں تھا اور میں تو شاہ محمود قریشی سے ملنے آیا تھا، مجھے بھی گرفتار کرلیا گیا۔ مجھیغیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔ موت کی چکی والی کوٹھڑی میں رکھا جا رہا ہے۔
میری ہمدردیاں اعظم سواتی، گرفتار قیادت اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان کے ساتھ ہیں لیکن انہیں کس نے یہ مشورہ دیا تھا کہ جیل بھرو تحریک کا راستہ اختیار کریں۔ اب ہمیشہ کی طرح یوٹرن کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو نہ تو کسی دشمن کہ ضرورت ہے نہ کسی ہمدرد کی نہ ہی انہیں کسی خیر خواہ کہ ضرورت ہے۔ جو انہیں اچھا مشورہ دیتا ہے یہ سمجھتے ہیں کہ اسے کوئی کام ہو گا، جو ان کا خیر خواہ ہے یہ سمجھتے ہیں وہ پرستار یے، سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان تحریک انصاف میں ہر شخص خود کو عقل کل سمجھتا ہے۔ اب رونے دھونے کا کیا فائدہ ہے جیل بھرو تحریک بری طرح ناکام ہوئی ہے اور اس کی آڑ میں اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ انتخابات کروا دیں تو لگتا ہے اس عالی دماغ کو کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ہونے والی شکست سے افاقہ نہیں ہوا۔ موجودہ حالات میں انتخابات مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہیں بلکہ کسی بھی سطح پر ہونے والے انتخابات کے بعد ملک میں حالات مزید خراب ہوں گے۔ جس جماعت کو انتخابات کی اب سے زیادہ جلدی اور فکر ہے یہی جماعت انتخابات کے بعد سب سے زیادہ شور بھی مچائے گی کیونکہ ان کے خیال میں ملک میں کوئی اور جماعت جیت نہیں سکتی یہی وہ سوچ ہے جو آپ کو بدترین نتائج کی طرف دھکیلتی ہے کیونکہ اگر کوئی خود کو ملک سے بڑا سمجھنے لگے، ناگزیر سمجھنے لگے، حرف آخر سمجھنے لگے، آخری امید سمجھنے لگے تو وہ حقیقت کا کبھی سامنا نہیں کر سکتا۔ انتخابات کے بعد نتائج ان کے حق میں نہیں آتے تو پھر یہی لوگ سڑکوں پر ہوں گے۔ صرف اپنے اقتدار کے لیے ملک کے مستقبل کو داو پر لگا دیں گے۔ اس طرز سیاست کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہ سوچ اور سیاست کا انداز ملک و قوم کے لیے نقصان دہ ہے۔
خبر یہ بھی ہے کہ ملک کے بیشتر یوٹیلیٹی سٹورز پر گھی کی قلت کے باعث عوام کی پریشانی بڑھ گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ گھی دستیابی کے مسائل مختلف وینڈرز کی ایل سیز نہ کھلنے سے ہیں۔ یاد رہے کہ ایل سیز نہ کھلنا ایک مسئلہ ہے جب کہ اس سے بھی بڑا مسئلہ فنڈز کہ دستیابی کا ہے۔ فنڈز کی کمی کے باعث بھی اشیائ کی دستیابی میں تاخیر ہوئی یے۔ حکومت نے چھ ارب سے زائد کے فنڈز جاری کیے ہیں آئندہ چند روز میں یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ دراصل یہ کسی کے لیے مسئلہ ہی نہیں، اصل مسئلہ گرفتاریاں، ضمانتیں، پیشیاں اور جواب ہیں۔ حکومت کی توجہ مخالف سیاست دانوں کو گرفتار کرنے میں اور اپوزیشن کی ساری کوشش حکومت کو کام سے روکنے اور عوامی سطح پر بیچینی قائم رکھنے میں ہے۔ اپوزیشن کی ہر ممکن کوشش ہے کہ کوئی سو نہ سکے، کسی کو سکون کی نیند نہ آئے اور حکومتی اقدامات یہ بتاتے ہیں کہ کوئی پیٹ نہ بھر سکے، کوئی پیسہ بچا نہ سکے۔ اس سارے کھیل میں عام آدمی کہاں جائے گا۔ نہ وہ حکومت کی ترجیحات میں ہے نہ اپوزیشن کو اس کا کوئی احساس ہے۔ ہو سکتا ہے پی ٹی آئی قیادت کو جیل جا کر کچھ اندازہ ہو کہ وہاں رہنے والوں کے کیا مسائل ہیں اور جنہیں وہ اپنی حکومت میں وہاں بھیجتے رہے ہیں ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا رہا ہے کاش کہ وہ باہر نکلیں تو کچھ سیکھ کر نکلیں اور ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔
اب رونے کا فائدہ؟؟؟؟
Feb 26, 2023