پاکستان امن چاہتاہے اس مقصد کیلئے پاکستان نے بے شمار جانی و مالی قربانیاں دی ہیں۔ پاکستان چاہتاہے کہ خطے میں حالات کشیدہ نہ ہوں اور تمام حل طلب معاملات خوش اسلوبی سے طے پاجائیں‘ اس مقصد کیلئے افغانستان کے مسئلے پر بھی پاکستان اور ایران نے مثبت کردار ادا کیاہے جبکہ ماضی میں ایران کاکردار افغانستان کے حوالے سے مختلف تھا۔ لہٰذا یہ اچھی شروعات ہوسکتی ہیں۔ ایران ‘ پاکستان اور افغانستان باہمی تجارت کے ذریعے اپنی عوام کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں تینوں ممالک کے زمینی راستوں کے ذریعے رابطے موجود ہیں لہٰذا اگر امن وامان کی صورتحال بہتر ہوجائے اور دہشت گردی کے خطرات ختم ہوجائیں تو تینوں ممالک کے درمیان تجارت اربوں ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے جس سے فریقین کی عوام اور تاجروں کو فائدہ پہنچے گا اور سستی اشیا عوام کو فراہم کی جاسکیںگی۔مستقبل کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران‘ پاکستان اور افغانستان کو مل کر فیصلے کرنے چاہئیں فی الحال افغانستان بحرانی کیفیت سے دوچار ہے لیکن بہت جلد وہ اس بحران سے نکل جائے گا‘ جیسے ہی افغانستان کے معاملات حل ہوجائیں گے تو اس کے بعد خطے میں تیزی سے ترقی کاسفر شروع ہوگا۔اس کے علاوہ ٹرین سروس کے ذریعے تینوں جانب کی عوام کو سستی سفری سہولیات فراہم ہوسکتی ہیں اور پھرتجارتی نقطہ نظر سے بھی یہ بہتر آپشن بھی ہوگا۔کافی عرصے سے ایران اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ تجارت ‘ دفاعی تعاون‘ سرحد پر باڑ کی تنصیب‘ علاقائی سیکورٹی امن کے فروغ اور انسداد دہشت گردی کی مشترکہ کوششوں کے حوالے سے بات چیت جاری ہے‘ افغانستان کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد پاک ایران تجارت میں بھی تیزی نظر آئے گی ‘ فی الحال افغانستان کے مسئلے کی وجہ سے پاک ایران تجارتی حجم بڑھنے کے زیادہ چانس نہیں ہیں لیکن آئندہ اگر خطے میں حالات نارمل ہوجاتے ہیں تو اس میں کافی بہتری آنے کے قوی امکانات موجود ہیں۔
ایران اور پاکستان ہمسایہ اور برادر ممالک ہیں جو گہرے مذہبی، ثقافتی اور تاریخی رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات ہر سطح پر فروغ پارہے ہیں۔دونوں ملکوں میں حالیہ برسوں کے دوران اقتصادی اور تجارتی تعلقات میں اضافہ بھی ہواہے جواچھا عمل ہے۔بلاشبہ ایران ہمارا قریبی اسلامی برادر ملک ہے‘ پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات بہت پرانے اور مستحکم ہیں‘ جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک کے عوام میں رابطے ہیں اور دوطرفہ تجارتی وفود بھی آجاتے رہتے ہیں لیکن پاکستان اور ایران کے درمیان جوتعلقات اس وقت قائم ہیںوہ سیاسی اور تجارتی سطح کے ہیں‘ پاکستان اور ایران کے درمیان عسکری تعاون بڑھایاجاسکتاہے اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے بھی بہت زیادہ مواقع موجود ہیں‘ پاکستان ایران سے تیل اور گیس کی تجارت بھی کرسکتاہے اگرچہ اس راہ میںامریکی پابندیاں حائل ہیں لیکن پاکستان کو انرجی اور گیس کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اس سلسلے میں امریکہ سمیت عالمی برادری سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایران کا بارڈر ہمارے بہت قریب ہے اور وہاں سے گیس اور پیٹرول آسانی سے کم کرائے سے اور جلد ی آسکتاہے اس لئے اس منصوبے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے قبل بھی پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہد ہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت امریکہ نے سختی سے منع کردیا تھا اور پاکستان پر دبا? ڈالتے ہوئے اس منصوبے کو ختم کروادیاہے تھا حالانکہ ایران نے اپنے حصے کاکام مکمل کرتے ہوئے اپنے بارڈر تک گیس پائپ لائن بھی بچھا دی تھی لیکن پاکستان نے ہمت نہیں کی اور اس منصوبے کو آگے نہ بڑھاسکا جس کاخمیازہ آج عوام گیس ، بجلی اور پیٹرول کی مہنگائی اور بدترین بجلی اورگیس لوڈشیڈنگ کے ساتھ بھگت رہے ہیں۔
ہمیں اپنی انرجی اور گیس کی ملکی ضروریات کے پیش نظر مستقبل کی فکر کرتے ہوئے جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے‘ ہر سال جب بھی کوئی فصل کا وقت آتاہے تو وہ فصل مہنگی ہوجاتی ہے‘ جب سردی آتی ہے سردی کی اشیا مہنگی ہوجاتی ہیں گرمی ہو توگرمی کی اشیا مہنگی کردی جاتی ہیں۔ ملک میں ایڈمنسٹریشن کا فقدان ہے‘ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے‘ قیمتیں کنٹرول کرنے والا کوئی نہیں ہے‘جب بھی حکومت اعلان کرتی ہے کہ فلاں چیز کے ریٹ نہیں بڑھنے دیں گے اس کے بعد اسی چیز کے ریٹ ڈبل ہوجاتے ہیں سمجھ نہیں آرہاہے ہوکیارہاہے‘ اسے کنٹرول کون کرے گا؟بجلی ‘ گیس‘ پیٹرول کے نرخ بڑھنے سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے‘ گندم مہنگی ہونے سے آٹا بھی مہنگا ہوگیااسی طرح ڈالر کے ریٹ بڑھنے سے تمام امپورٹ کی گئیں اشیا بھی مہنگی ہوجاتی ہیں مہنگائی کی ماری عوام کو بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں‘ کم از کم مقامی سطح پر پیدا ہونے والی اور بنائی جانے والی اشیا تو سستی ہونی چاہیے لیکن اس کے نرخ بھی حد درجہ بڑھ چکے ہیں لہٰذا حکومت کو مستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کرنے کی ضرو رت ہے۔ اسمگلنگ روکنے کیلئے اقدامات کئے جائیں تاکہ قومی ٹیکس آمدنی میں اضافہ ہوسکے ‘ پاک ایران دوطرفہ تجارت میں بڑے مواقع موجود ہیں‘ دونوں طرفہ کے تاجر ، صنعتکار اور سرمایہ کار تجارتی سہولیات سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں‘ بارڈر مینجمنٹ سسٹم کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے‘ پاک ایران بارڈر پر دہشت گردی کی وارداتوں کی تھام کیلئے سیکیورٹی سخت کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ماضی میں پاکستان اور ایران کے درمیان سرحد پر باڑ ، دفاعی تعاون ، علاقائی سیکورٹی پر بات چیت کی گئی تھی جبکہ امن کے فروغ اور انسداد دہشت گردی کی مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا گیا تھاجسے تسلسل کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرورت ہے دونوں ممالک ایک دوسرے کی کرنسی میں لین دین کرسکتے ہیں جس کے باعث ڈالرز کا دبا? کم ہوجائے گا۔ پاک ایران تعلقات کے فروغ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ،اس کے علاوہ دوطرفہ تجارت کے باعث پاکستان کو کون کون سی اشیادیگر ممالک کی نسبت سستی اور جلدی میسر آسکتی ہیں انہیں ایران سے درآمد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کو سستی اشیا میسر آسکے اور مہنگائی کا دبا? کم ہوسکے۔دوطرفہ تجارتی تعلقات میں اضافہ کے لئے دونوں ممالک کے معاشی اور توانائی کے شعبوں میں تعاون کا فروغ بھی ضروری ہے۔پاک ایران سرحد پر مزید سرحدی کراسنگ پوائنٹس بناکرکھولنے کی بھی ضرورت ہے جس سے سرحد کے دونوں جانب آمدورفت کی سہولت میں مزید اضافہ ہوگا۔
پاک ایران باہمی تجارت
Feb 26, 2023