کرپشن ایک ایسا زہر ہے جو کسی بھی معاشرے کو تباہ کرنے کے لئے بہت کافی ہےاسی طرح پاکستان میں بڑھتی بے روزگاری نے حالات بہت تنگ کردیئے ہیں غریب کا جینا بوجھل ہوگیا ہے اور جب اس طرح کے حالات ہوجاتے ہیں تو کرائم بھی بڑھ جاتا ہے اس کرائم کو روکنے کے لئے سب سے اہم کردار پولیس کا ہوتا ہے۔
ماضی میں پولیس کے اعلی آفیسران نے اس بات پر توجہ نہ دی جس سے کرپشن بڑھتی رہی مگر اب پنجاب میں ایک ایسے شیر ڈاکٹر عثمان انور کی انٹری ہوئی ہے جس نے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ کر رکھ دیا ہے
1787 آئی جی کمپلینٹ نمبر کے بارے میں پہلے تو شاید کسی کو خبر نہ تھی مگر اب پنجاب کے ہر بچے بچے کو پتا ہے کہ اس کال پر بغیر پیسوں بغیر رشوت دیئے انصاف ملتا ہے اس سے قبل متاثرہ شخص پولیس کے پاس جاتا تھا بھاری رقم دیتا تھا تب جا کر ایف آئی آر درج ہوتی تھی مگر اب ایک کال پر آئی جی صاحب ڈاکٹر عثمان انور نے انصاف کو یقینی بنایا۔ڈیرہ غازیخان کی بات کی جائے تو آر پی او ڈیرہ غازیخان سجاد حسین منج صاحب اور ڈی پی او ڈیرہ غازیخان محمد راشد آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انورکے احکامات من و عن پورا کر رہے ہیں ان کا عزم بھی یہی ہے کرپشن سے پاک پورا ڈی جی خان، اس کے ساتھ ساتھ آر پی او اور ڈی پی او ڈیرہ غازیخان روزانہ کی بنیاد پر کھلی کچہری کا انعقاد کرتے ہیں سائل کو ان آفیسران سے ملنے کی مکمل آزادی ہے کوئی روک ٹوک نہیں۔حال ہی میں ڈاکٹر عثمان انور نے انصاف دینے میں غفلت برتنے پر کئی ڈی پی اوز کو شو کاز جاری کئے بیشتر ڈی ایس پیز اور ایس ایچ اوز معطل کر دیئے ڈاکٹر عثمان انور کا یہ مشن ہے انصاف ہر متاثرہ شخص کو اس کی دہلیز پر ملے گا کسی کو ذلیل و رسوا نہیں ہونا پڑے گا دھکے نہیں کھانا پڑیں گے اور جو ایس ایچ او اور ڈی ایس پی انصاف نہیں دے سکتا آئی جی پنجاب کا کہنا ہے وہ گھر بیٹھے گا۔پنجاب کی پوری عوام آئی جی کے اس اقدام سے بہت خوش ہیں اور دعا کرتے ہیں ہر ادارے میں ڈاکٹر عثمان انور جیسے ایماندار انصاف پسند آفیسر ہوں گے تو پاکستان ایک دن مکمل طور کرپشن کی لعنت سے آزاد ہوجائے گا۔
اس سے قبل ڈیرہ غازیخان میں چوری ڈکیتی عام تھی ہر چوک پر سڑک پر ڈکیٹ لوٹ مار کر رہے تھے عورت کی عزت محفوظ نہیں تھی مگر اب حالات بہت بہتر ہیں پولیس بھی کافی حد تک بہتر ہوتی جارہی ہے
ایف آئی آر کے مسئلے کے حل کے بعد ڈاکٹر عثمان انور کو اب انویسٹیگیشن پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ ایف آئی آر تو ہو جاتی ہے مگر تفتیش میں تفتیشی رشوت لے کر میرٹ کی دھجیاں اڑا رہے ہیں آئی جی صاحب کو اس کے لئے بھی مانیٹرنگ سیل تشکیل دینا چاہئیے جو تفتیش کو میرٹ پر یقینی بنائیں۔اس کے علاوہ ڈیرہ غازیخان میں موجود سخی سرور چیک پوسٹ سے روزانہ کی بنیاد پر منشیات ایرانی ڈیزل پٹرول نان کسٹم گاڑیوں کی سمگلنگ ہورہی ہے وہاں پر تعینات چوکی انچارج ریٹ فکس کرکے گاڑیوں کو گزرنے دے رہے ہیں جیسے کرپشن معاشرے کے لئے ناسور ہے اسی طرح منشیات بھی ناسور ہے اور نوجوان نسل کی تباہی کاسبب ہے اسی طرح ترنمن چیک پوسٹ تونسہ ہیڈ تو نسہ تھانہ کوٹ ادو تھانہ صدر تو سہ اور غازیگھاٹ چیک پوسٹ پر سمگلنگ وغیرہ چند پیسے دے کر بآسانی کی جارہی ہے جو کہ پاکستانی معیشت کے لئے تباہ کن ہے ڈاکٹر عثمان صاحب کو ان پر بھی کمیٹی تشکیل دے کر اس مصیبت سے بھی پنجاب کو پاک کرنا ہوگا کیونکہ یہ سمگل شدہ منشیات پورے پنجاب میں ڈلیور ہورہی ہے پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عوام کو بغیر کچھ دئے ایف آئی آر مل رہی ہے یقیناً اس کا کریڈٹ آئی جی پنجاب کو جاتا ھے ماضی میں ایف آئی آر کے اندراج کیلئے ہزاروں روپے رشوت دینے کے بعد ممکن ہوتا تھا ڈیرہ غازیخان میں امن و امان کی صورتحال پہلے کی نسبت بہتر ہے آنے والے دنوں میں مذید بہتری کی امید کرتے ہیں ڈیرہ غازیخان پنجاب کا حساس ترین ضلع کی سرحدیں شمال میں خیبر پختونخوا مغرب میں بلوچستان اور جنوب میں سندھ سے ملتی ہیں۔