اسرائیل کا پہلا وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریان ایک دن معمول کے مطابق آفس جانے لگا تو اس کی بیٹی نے اسے ےاد کراتے ہوئے کہا کہ آج ”دیوارِ گریہ“ پرسالانہ دعا مانگنے کا دن ہے۔ سب لوگ جا رہے ہیں،آپ بھی تشریف لے چلیے اور دفتر سے چھٹی کر لیجیے۔ بن گوریان نے کہا کہ بلا شبہ دعا کا بہت بلند مقام ہے، مگرکام کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ بیٹی نے”دیوارِگریہ“ پر دعا مانگنے کی اہمیت پرایک لیکچر داغ دیا۔ جواب میںبن گوریان نے کہا کہ عمل کے بغیر دعا بے معنی ہے۔ مسلمانوں کو ہی دیکھ لیجئے ، ہر سال لاکھوں کی تعداد میں حج کیلئے خانہ کعبہ میں جمع ہوتے ہیں جہاں وہ گڑِ گڑا کر اسرائیل اور یہودیوں کی تباہی و بربادی کیلئے اپنے خدا سے خشوع و خضوع سے دعائیںمانگتے ہیں۔مگر اتنی کثیر دعا¾ئی¾ں اسرائیل کا آج تک کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں۔ اسرائیل حجم اور ٓابادی کے لحاظ سے مسلمان ممالک سے کئی گنا چھوٹا ملک ہے، مگر وہ پھر بھی اس سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ان کی بے عملی انہیں اسرائیل پر کبھی حاوی نہیں ہونے دے گی۔
بن گوریان کی بات مجھے تب یاد آگئی جب وزیرِ اعظم پاکستان نے ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کے ڈالر کی شرح ِبدل اورپٹرول و اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ سے متعلق سوال کے جواب میں فرماےا کہ میں بھی دعا مانگ رہا ہوں،آپ بھی دعاکریں کہ ڈالر کی شرحِ بدل ایک سو روپے تک آ جائے۔پھر ہمارے ہاں غربت میں کمی اور خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔وزیرِاعظم صاحب کی معصوم خواہش اور منطق گویا بن گوریان کے الفاظ پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے ۔ دعا سنتِ نبوی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زندگی کے مختلف مواقع اور افعال سے متعلق دعائیں سکھائیں، اورساتھ ہی تقویٰ اور عمل کا درس دیا۔ ہم نے دعاﺅںکی حد تک تو انتہائی اخلاص سے اس نصیحت پر عمل پیرائی شروع کر دی مگر حکم کے دوسرے حصّے پر عمل سے ہمیشہ گریز پا رہے ۔ اس تناظر میں ہم اپنی انفرادی، معاشرتی اورسیاسی زندگی پرطائرانہ سی نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ ہم نے اگر مشرق کی جانب جانا ہے تو رُخ مغرب کی طرف کیے بیٹھے ہیں۔اورمنزل تک نہ پہنچ پانے کی صورت میں کہتے کہ ”بس ہماری تو قسمت ہی ایسی تھی“ ۔ یہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ ہم اپنی سمت کا درست تعین ہی نہ کریںاور منزل کو جا لیں۔منزل پر پہنچنے کیلیے ہمیں اپنی پُر خلوص لگن،محنت اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ دعاﺅں کی جانب رجوع کرنا ہے۔محض دعاﺅں کی کشتی پرسوار ہو کرہم ساحلِ مراد پر کبھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ اگر ہم مسلمان حکمرانوں کی بات کریں تو تقریباََ ہر مسلم سربراہِ حکومت کیلئے خانہ کعبہ کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔وہ اور اس کے قافلہ میں شامل’عشّاق“ خانہ کعبہ میں ،صاحبِ کعبہ کے حضور گڑگڑا کراپنے وطن کی سلامتی اورخوشحالی کی دعائیں مانگتے ہیں۔مگر کیا وجہ ہے کہ سب سے بلند مرتبہ مقام پرتسلسل سے مانگی گئی دعائیں ابھی تک اثر آور نہیں ہو سکیں۔البتہ ان سربراہان کی وہ دعائیں ضرور بار آور ہوئیں جو انہوں نے ذاتی کاروبار اور اثاثوں کی بڑھوتری کیلئے مانگیں۔ خانہ کعبہ میں مانگی گئی دعاﺅں کا اثر ہر دور کے مقتدر کی ذاتی خوشحالی سے مترشح ہے ،کیونکہ اس کیلیے اس نے خلوصِ نیت سے محنت کی۔اگر یہی محنت اور خلوصِ نیت پاکستان کے حصّے میں بھی آیا ہوتا تو اس عرفہ مقام پر مانگی گئی دعائیں ضرور رنگ لاتیں۔میں یقین سے کہتا ہوں کہ جب تک آپ عملی اقدام نہیں اٹھائیں گے، دعائیں خانہ کعبہ میں بھی منگوا لیں، ڈالر سو روپے کا کبھی نہیں ہو گا۔ ویسے بھی نبی ِرحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا کی قبولیت کے لیے پیٹ میں رزقِ حلال کا ہونا ضروری ہے۔
پاکستان کے معاشی، معاشرتی اور سیاسی حالات آئے روز پہلے سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو کوستی ہے۔حکومتوں کے” حواری“ موجودہ حکومت کی ہر نالائقی اور ناکامی کو گزشتہ حکومت کی ”وطن دشمن“ پالیسیوں کا حاصل سمجھتی ہے۔حواری چونکہ شعور سے عاری رکھے جاتے ہیں اس لیے وہ اپنے ”سیاسی پیشواﺅں“ کو بنیادی طور پر معصوم اور دودھ کا دُھلا سمجھتے ہیں۔ان کی بعض خوبیاں تو ایسی بھی ڈھونڈ نکالتے ہیں، جن کا ان کے پیشواﺅںکو خود بھی پتہ نہیں ہوتا۔ پچھلے دورِ حکومت میں میرے ایک عزیز پٹرول پمپ کے پاس سے گزرتے ہوئے پمپ کے باہر آویزاں نرخوں کو پڑھ کر حکومتِ وقت کو کوستے اور کئی ایک فتوے صادر کرتے جاتے ۔ اب اسی پٹرول پمپ کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ کچھ بھی نہیں بولتے، بس منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں۔
موجودہ حکومت کے شروع کے دنوں میں ”حواری“ اشیاءخوردنی و دیگر اجناس کے نرخوں کے سابقہ دورکے نرخوں سے موازنے بھیجا کرتے تھے۔آج جب منڈیاں سنسان پڑی ہیں، کاروبار ٹھپ ہو گئے ہیں، غربت گلی گلی اذانیں دے رہی ہے، وہ ” حواری “وزیرِ اعظم صاحب کی دعاﺅں کی درخواست کو دوام بخشنے کی تگ و دو میں ہیں۔اگر ہمارا دعاﺅں پر اتنا ہی پختہ ایمان ہے تو پھر ہمیں صوبائی حکومت کا سربراہ ہوتے ہوئے اپنی مرکزی حکومت کے خلاف مہنگائی سے نجات اور غریب پروری کی آڑ میں احتجاج کرنے کی نو بت کیوں پیش آئی؟ اسی طرح اسی نجات کیلئے سابقہ حکومت کے خلاف تیرہ جماعتوں نے احتجاج کو دعاﺅں پر ترجیح کیوں دی؟ آج مہنگائی نے عوام کو عملاََ ننگا کر کے رکھ دیاہے ۔ سفیدپوش بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔ روٹی بیس روپے میں بِک رہی ہے۔ اکثر میںدال تک پکانے کی سکت نہیں رہی۔پیٹ کی آگ بجھانے اور بچوں کو تعلیم دلانے کیلئے کوئی سونا تو کوئی گھر بیچ رہا ہے۔ سنا ہے کہیں کہیں عزتیں بھی بک رہی ہیں۔ایسے ”بے مثال“ معاشرتی اور معاشی حالات میں ایک احتجاج تو بنتا ہے ۔ مگر اسکی سرپرستی کی درخواست حکومتِ وقت سے ہے۔ ان کا غربت اور مہنگائی کےخلاف احتجاج کا تجربہ پھر کس روز کام آئیگا۔ اب آپ ہی بتائیے کہ مہنگائی اور غربت سے نجات کیلئے عوام آپکے نسخہِ دعا کو آزمائیں ، آپ سے احتجاج کی سرپرستی کی درخواست کریں ےاآپ کی قائدانہ صلاحیتوںکے گیت گا گاکر پیٹ کی بھوک مٹائیں؟
”دعاﺅں سے کبھی پیٹ نہیں بھرتا“
Feb 26, 2023