جنرل اسمبلی میں یوکرائن پر 11ویں ہنگامی اجلاس کے دوران پاکستانی فرسٹ سیکرٹری جواد اجمل نے کہا آج کی بحث کا محور بحران کے شکار افراد پر ہے جن کا ہمیں سامنا ہے۔ چارٹر کے پہلے آرٹیکل میں درج لوگوں کے بنیادی حقوق میں سے ایک حق خودارادیت ہے۔ کشمیریوں کے معاملے میں حق خودارادیت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے تسلیم کیا ہوا ہے اور کشمیری عوام سے وعدہ بھی کیا ہوا ہے ۔ کشمیریوں کو اپنی تقدیر کا تعین کرنے کے قابل بنانے کیلئے اقوام متحدہ کی زیرنگرانی استصواب ناگزیر ہے۔ دوسری جانب مودی سرکار کی بڑھتی ناانصافیوں اور مظالم سے تنگ آکر سکھ کمیونٹی اپنی حفاظت میں ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئی۔بھارتی میڈیا کے مطابق سکھوں کی آزاد خالصتان تحریک زور پکڑنے لگی ہے اور خالصتان کے حامی سکھوں اور پولیس میں تصادم کی بھی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔
بھارت کے غیرقانونی قبضہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ پر پاکستان سمیت پوری دنیا میں موجود کشمیری عوام اقوام متحدہ پر 75 سال سے دباﺅ ڈالتے چلے آرہے کہ وہ اپنی منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کو استصواب کا حق دلائے۔ 5 اگست 2019ءکو مقبوضہ کشمیر پر بھارتی شب خون کیخلاف اقوام متحدہ خود تین ہنگامی اجلاس منعقد کر چکا ہے‘ اسکے باوجود مظلوم کشمیریوں کو آج تک انکے حق سے محروم رکھا ہوا ہے۔ اس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ 2019ءکے بھارتی اقدام پر کشمیری عوام اور دنیا کو مطمئن کرنے کیلئے اقوام متحدہ نے ہنگامی اجلاس ضرور منعقد کئے مگر انکے انعقاد کا یہ ہرگز مقصد نہیں تھا کہ بھارت کیخلاف کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی۔ عالمی قیادتوں کے اسی نرم رویہ کا فائدہ اٹھا کر بھارت کے حوصلے بلند ہوئے اور وہ کشمیری عوام پر مظالم کے نت نئے ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔ اور اب بھارت میں بھی مودی سرکار نے اقلیتوں کا عرصہ تنگ کر دیا ہے۔ مسلمان تو پہلے ہی اسکے زیر عتاب تھے‘ مودی اور اسکی پروردہ آرایس ایس نے بنیادی حقوق سلب کرنے کے علاوہ انکی مذہبی آزادی چھین رکھی ہے۔ اب بھارت سکھ اقلیت کے بھی درپے ہوگیا ہے۔ گزشتہ روز مودی سرکار کی بڑھتی ناانصافیوں اور مظالم سے تنگ آکر سکھ کمیونٹی نے اپنی حفاظت میں ہتھیار اٹھالئے۔ سکھ رہنما طوفان سنگھ کی گرفتاری کیخلاف سکھوں نے اجنالہ تھانے پر دھاوا بول دیا جبکہ ”وارث پنجاب دے“ سربراہ امرت پال سنگھ کے حامیوں اور پولیس کے مابین جھڑپوں سے صورتحال کشیدہ ہو گئی جس سے خالصتان تحریک بھی زور پکڑ گئی۔ جون 1984ءمیں بھارتی فوج کی جانب سے کئے گئے اپریشن بلیوسٹار کے تحت امرتسر میں سکھوں کے مقدس ترین گولڈن ٹیمپل پر حملہ کرکے پانچ ہزار سے زائد سکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا جس کا سکھوں کا آج بھی رنج ہے۔ گزشتہ سال سکھ کسانوں نے نہایت دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف بھارتی حکومت کو للکارا، بلکہ دلی کے لال قلعے پر چڑھ کر بھارتی پرچم اتار پھینکا اور اسکی جگہ اپنا خالصہ پرچم لہرا دیا۔ سکھوں کے اس دلیرانہ اقدام اور گزشتہ روزکے تصادم سے خالصتان تحریک کو ایک نئی مہمیز ملی ہے اور جس طرح سکھ کمیونٹی بھارت سرکار کو بے بس کرتی نظر آرہی ہے‘ بھارت کو بھی بخوبی اندازہ ہو چکا ہے کہ وہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر بھی مظلوموں کے جذبہ¿ حریت کو نہیں دبا سکتا۔