شہداء  وطن کا سوال


حرفِ قلندر
پروفیسر احمد خان 
hafizhammadahmadkhan@gmail.com
پاکستانی سیاست کی کھینچا تانی عروج پر ہے، معیشت ہچکولے کھا رہی ہے ، عوام طوفانی مہنگائی کے باوجود اپنے اپنے لیڈر کے لئے لڑنے مرنے پہ تیار ہیں ، دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر منہ کھولے کھڑا ہے اس لق و دق صحرائی ماحول میں مجھے ایک نخلستان کی سیرکرنی ہے یہ نخلستان اپنے اندر وفا شعاری ، جذب و مستی اور سرشاری کی ہوائیں سموئے ہوئے ہے اس نخلستان کے برگ و پر سے آنے والی خوشبو میں لہوکی ہلکی سی باس بسی ہوئی ہے آپ جب اس لہو کے نخلستان میں داخل ہوتے ہیں تو پاکستان میں موجود سب پریشانیاں ، گھبراھٹیں اور مسائل بھولنے لگتے ہیں سرشاری اور مدہوشی کی عجب کیفیت آپ کو گھیر لیتی ہے لگتا ہی نہیں کہ آپ کا پاکستان مسائلستان بن چکا ہے،وفا شعاروں کا لہوآپ کو عجب نشہ مہیا کرتا ہے جو آپ کو سرتاپا اس وطن کی محبت میں مبتلا کر دیتا ہے ان وفا شعاروں کے بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں پہ گرتے ہوئے لاشے، وزیرستان کے غاروں میں مادرِ وطن پہ لٹتی جوانیاں، ماؤں کی اجڑتی گودیں ، نازنینوں کے لٹتے سہاگ اس قوم سے سراپا سوال ہیں کہ اے اہلِ وطن  بتاؤ ہم نے حق ادا نہیں کیا؟ 
دنیا بھرمیں جائیدادوں کا جال بنتے لیڈر، توشہ خانے کی کہانیوں سے لبریز مہاتما اور سوئزر لینڈ اور لندن میں اولاد کے لیے لامتناہی وراثتیں جمع کرتی ہوئی اشرافیہ کے اشاروں پہ ناچنے والو ہم نے یہ قربانی مادرِ وطن کے لئے کیا اس لئے دی تھی؟ کہ آپ جب چاہیں کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کی ڈگڈگی بجانے لگ جائیں اور جب چاہیں ہماری شہادتوں کو تاوان سمجھنے لگیں کیا آپ کو ہماری کٹی ہوئی لاشوں نے یہ درس دیا ہے کہ آپ جب چاہیں کسی بھی لیڈر کے کہنے پرہمیں گالی دینے پرکمربستہ ہو جائیں 
جمہوریت کی بقا اور آزادیِ اظہار کے نام پرکسی بھی حد سے گزر جائیں اور جن کی جنبش ابرو پر آپ اس مہم پہ چل نکلتے ہیں ان میں سی کوئی بھی سیاسی راہنما اعلیٰ اخلاقی اقدار تو کیا عمومی اخلاقی معیارات سے بھی  آشنا نہیں ان کے زبان و اخلاق اور کردار کی کہانیاں زبان زدِ عام ہیں اور آپ اس شرمناک مہم کے ذریعے  ان کے سطحی مفادات کی تکمیل کرتے کرتے اپنے دشمن کو بھی دعوتِ شیراز دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ بھی آئے اور مادرِ وطن کے لہو رنگ جیالوں کی قبائے عصمت نوچنے میں آپ سے دوچار ہاتھ آگے بڑھ کر یہ 
"فریضہ" سرانجام دے 
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری قومی یکجہتی جمہوریت سے وابستہ ہے اور جمہوریت پہ لگنے والی کوئی بھی نقب وطن دشمنی ہے لیکن انتہائی ادب سے عرض ہے کہ یہ نقب جہاں چند وردی پوشوں نے لگائی وہیں بہت ساریجمہوری سیاسی مہاتمے اس کے مرتکب ہوئے تاریخ کے کوڑا دان کو الٹنے سے گردوپیش میں بدبو ہی بڑھے گی لیکن اگر ان جمہوری تماشا گروں کے جمہوریت پہ حملے اس لئے قابلِ گردن زدنی نہیں کہ وہ سیاسی خرقہ پوش تھے وردی پوش نہیں تو پھر ان آمروں کا فیصلہ بھی تاریخ پہ اٹھا رکھیں اور اس جرم کی پاداش میں وردی پوش سرفروشوں کو گالی دینے کی روایت بدل لیجئے اس وطن کی یکجہتی کی بہت سی علامتیں اور وجوہات ہیں لیکن ان میں سے ایک بہت بڑی علامت وردی پوشوں کا یہ سرفروش قبیلہ بھی ہے نخلستان کی سیر میں ملنے والا یہ سبق مجھے انگشت بدنداں کئے ہوئے ہے

ای پیپر دی نیشن