سیّد روح الامین
اُردو ادب کا بہت ہی معتبر نام ڈاکٹر جمیل جالبی 12جون 1929ء علی گڑھ (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ اُردو زبان کا ناچیز پر یہ احسان ہے کہ اتنی عظیم ہستیوں کے پاس بیٹھنے کا جس نے شرف بخشا۔ 2004ء میں ڈاکٹرصاحب کو ’’اُردوہے جس کا نام‘‘ ارسال کی۔ فوراً جواب مِلا اور بہت ہی خوبصورت الفاظ میں پذیرائی کی۔ جب کتاب شائع ہوتی فوری طور پر ارسال کر دیتا۔ 2006ء میں کراچی گیا۔ ملاقات کا بے حد اشتیاق تھا۔ جون کا مہینہ شدید گرمی تھی۔ گھر پر جا کر گھنٹی بجائی۔ اتنی عظیم شخصیت اور ناچیز کو اس قدر عزت بخشی۔ ملازم آیا میں نے نام بتایا۔ کوئی پندرہ منٹ کھڑا رہا۔ گرمی میں پسینے سے شرابور، دل میں غصّہ بھی آیا کہ اتنی دیر سے کھڑا ہوں تو اچانک دروازہ کھلا تو ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب نے خود ہاتھ ملایا پھر گلے مِلے۔ اللہ اکبر پہلے تو گرمی کی شدت سے شرابور تھا اَب اُن کو دیکھ کر شرمندگی سے شرابور ہورہا تھا۔ عرض کیا جناب آپ خود کیوں تشریف لائے ملازم کو کہہ دیا ہوتا توبے ساختہ فرمانے لگے ’’بیٹا آپ جواُردوکی خدمت کا کام کر رہے ہیں مجھ پرفرض تھا کہ خود آپ کولینے آئوں۔‘‘ میں حیران بھی تھا پریشان بھی۔ خوشی کی تو انتہا ہی نہ تھی۔ بہرحال دیوان خانے میں بیٹھ گئے۔ تقریباً چار گھنٹے گذر گئے۔ بہت ہی باتیں ہوئیں۔ کالم میں احاطہ نہیں ہو سکتا۔ فرمانے لگے ’’تاریخ ادبِ اُردو‘‘ جب یہاں تک پہنچوں گا آپ کی تصنیفات کا ذکر بھی ضرور کروں گا۔ مجھے کتب خانہ دکھایا۔ کھانا میرے ساتھ کھایا۔ ساتھ ہی گلی میں فوٹو گرافر کی دوکان تھی۔ اُس کو بلایا اور ناچیز کے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ مجھے اپنی قسمت پر رشک آرہا تھا۔ فرمانے لگے آپ ’’عز ت اکادمی‘‘ کے نام سے کتابیں شائع کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا جی میری نانی اماں کا نام سیّدہ عزت جان تھا، اللہ کی ولیہ تھیں۔ میری پرورش بھی انہوں نے کی تو فرمانے لگے کہ بیٹا کام کرتے جائیے یہی وجہ ہے کہ آپ کی ہر’’کتاب‘‘ کو ’’عزّت‘‘ ملے گی۔ کام کرتے جائیے۔ فرماتے ہیں میں ذرا رشید امجد صاحب سے بات کر لوں۔ میں نے کہا جی ضرور۔ اُسی کمرے میں سیٹ پڑا تھا۔ ڈاکٹر رشید امجد صاحب (مرحوم و مغفور) کو فون پر کہنے لگے کہ ’’روح الامین بیٹا میرے پاس بیٹھا ہواہے۔ اس کو آپ پی ایچ۔ ڈی کرا دیں اور میں سفارش کر رہا ہوں‘‘ ناچیز کے لئے کتنا بڑا اعزاز تھا۔ اُس وقت ایم۔ فل کا ’’سیاپا‘‘ نہیں تھا۔ بعد میں ڈاکٹر رشید امجد بھی چونکہ مجھے بہت عزیز رکھتے تھے۔ انہوں نے بھی کہا۔ بوجوہ میں اُس وقت نہ کر سکا۔ بہرحال ناچیز کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب نے میری کئی کتابوں کے لیے لکھا۔ ’’اُردو بطور ذریعۂ تعلیم‘‘ اور سارہ عنبر کی ناچیز کے بارے کتاب ’’کتابِ سپاس‘‘ اور ’’روح الامین۔ گنجینۂ زبان و ادب‘‘ کے دیباچے تحریر فرمائے اس کے علاوہ کئی کتابوں کے فلیپ بھی لکھ کر میری حوصلہ افزائی کی۔
خوشی ہے کہ ڈاکٹر شبیر احمد قادری نے ’’فرزندِ اُردو۔ سیّد روح الامین‘‘ کا انتساب ڈاکٹر جمیل جالبی اور ڈاکٹر رشید امجد کی اُردو سے محبت کے نام کیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کے علمی و ادبی کاموں سے کس کی مجال ہے کوئی انکار کرے؟ اُردو ادب کی کئی تاریخیں اب تک لکھی گئی ہیں مگر جو مقام ڈاکٹر صاحب کی ’تاریخ ادبِ اُردو‘ کو حاصل ہے وُہ کسی کو بھی نہیں جو کہ چار جلدوں پر مشتمل ہے۔ دیگر تصانیف میں (۱) پاکستانی کلچر (۲) کدم رائو پدم رائو (۳) ادب کلچر اور مسائل (۴) نئی تنقید (۵) حیرت ناک کہانیاں (۶) ایلیٹ کے مضامین (۷) بارہ کہانیاں (بچوں کا ادب) (۸) محمد تقی میرؔ (۹) میرا جی۔ ایک مطالعہ (۱۰) معاصرِ ادب (تنقیدی مضامین کا مجموعہ) (۱۱) دیوان حسن شوقی (۱۲) ارسطو سے ایلیٹ تک (۱۳) قدیم اُردو کی لُغت (۱۴) تنقید اور تجربہ وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کو حکومت کی طرف سے ’’ستارئہ امتیاز‘‘ اور ’’ہلال امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا۔ دراز قد، مضبوط جسم، چوڑا چکلا چہرہ، روشن آنکھیں، ظاہری و باطنی خوبصورت شخصیت کے مالک تھیں۔ ’’کل نفسٍ ذائقۃ الموت‘‘ کے مصداق ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب 18 ؍اپریل 2019ء کو اس جہانِ فانی سے رُخصت ہو گئے۔ اللہ کریم اُنہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ و ارفع مقام نصیب فرمائے۔ آمین!
ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جِسے
uuu