اقتدار کی جنگ عوام تنگ

ملکی خزانے کے اربوں روپے خرچ ہونے کے بعد بھی الیکشن کے نتائج عوام کی اکثریت کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکے یہ اور بات کہ کچھ حلقوں نے اس سے مطلوبہ نتائج حاصل کر لئے ہوں اور کچھ مخصوص لوگوں کو اس سے فاہدہ بھی حاصل ہوا ہو تاہم عوام کی اکثریت اہنے ووٹ اور مینڈیٹ کو تسلیم نہ ہونے کا واویلا کرتی نظر آ رہی ہے بہت سوں کا کہنا ہے کہ اگر عہدوں کی اسی طرح تقسیم کرنی تھی تو ملک کے اربوں روپے  صرف کرنے کی کیا ضرورت تھی ہوشربا مہنگائی ملک میں معاشی عدم استحکام سیاسی مخالفت اور بے روزگاری کے ماحول میں عوام کی الیکشن سے بہت توقعات وابستہ تھیں مگر الیکشن کے نتائج نے بہت سوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا یعنی صورت حال کچھ اس شعر کی سی رہی۔
 بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
 جو چیرا تو اک قطرہ خون نہ نکلا  
  الیکشن کے بعد ہر دفعہ مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات لگائے جاتے ہیں لیکن اس بار تو بہت سے دھاندلی بلکہ دھاندلے کا شور مچاتے نظر آ رہے ہیں۔پہلے دال میں کچھ کالا ہوتا تھا تو اب پوری دال ہی کالی نظر آ رہی ہے الیکشن میں ناکام امیدوار فارم 45 اور 47 کا رونا اب تک رو رہے ہیں مگر ان کی اشک شوئی کی بجائے اراکین کی حلف برداری اور حکومت سازی کے مراحل طے کئے جا رہے ہیں اراکین اسمبلی کی مراعات اور سہولیات کی باتیں ہو رہی ہیں اور بیچاری عوام الیکشن میں دئیے گئے لولی پاپ ملنے کے منتظر ہیں جن میں بجلی کے 200 اور 300 فری یونٹ کا پیکج بھی شامل ہے عوام پھر سے سستی روٹی سستے آ ٹے اور مہنگائی کے خاتمے کے لئے پہلے سے ازمائے گئے حکمرانوں کی طرف دیکھ رہی ہے الیکشن کمشن اور دیگر اداروں کی کارکردگی بھی اس بار سوالیہ نشان بنی ہے سیاست دانوں کی طرف سے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے نظام میں تبدیلی لائیں گے مگر اس بار ان کا یہ بھرم بھی ختم ہو گیا ہے کہ ان کے مینڈیٹ کے برعکس موروثی سیاست کرنے والی اشرافیہ کو ان پر مسلط کر دیا گیا ہے عوامی احتجاج کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی جماعتیں بھی انتخابی نتائج سے مطمئن نہیں ہیں عوام کا اداروں پر سے اعتبار ختم ہوتا جا رہا ہے سنجیدہ سیاست دان بھی موجودہ صورت حال سے دل برداشتہ ہیں ماضی کی طرح اسمبلیوں کے اراکین کی خرید و فروخت کا سلسلہ بھی اسی طرح جاری ہے جبکہ اسمبلیاں بھی ماضی کی طرح مچھلی منڈیوں کے مناظر پیش کر رہی ہیں احتجاج اور دھرنوں میں بھی کوئی کمی نہیں آ ئی اور معاملات جوں کے توں نظر آ رہے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ الیکشن سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے جس کی توقع کی جارہی تھی کہ جس کے نتیجے ملک میں عوامی سیاسی معاشی اور حکومتی سطح پر استحکام پیدا ہو سکے سو نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی ہے مطلوبہ اکثریت کسی ایک سیاسی جماعت کو نہ ملنے کی وجہ سے حکومت سازی میں مشکلات درپیش ہیں اور حکومت سازی کے بعد بھی بے یقینی کی تلوار سر پر لٹکی رہے گی اور نئی بننے والی حکومت دیگر اتحادی جماعتوں کی بلیک میلنگ کا شکار ہی رہے گی اپوزیشن اپنی خو نہیں بدلے گی اور حکومت اپنی وضع تبدیل نہیں ہونے دے گی ملکی اداروں کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے استعمال کیا جائے گا اور اقتدار کی اس جنگ میں عوام مزید تنگ ہو گی نجانے ہمارے ارباب اختیار اور منصوبہ ساز کب اس فرسودہ نظام کی تبدیلی کا سوچتے ہوئے ایک ایسی عوامی حکومت کا بھی ڈول ڈالیں گے جس سے نہ صرف عوامی مینڈیٹ تسلیم ہو بلکہ اقتدار میں آ نے والی حکومت اپنی آ ئینی مدت اقتدار کو بھی پورا کرے اور عوام کے لیے بھی کچھ کر سکے الیکشن کی شفافیت سے ہی اداروں پر اعتبار اور اعتماد کی فضا قائم کی جا سکتی ہے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لئے جہاں گڈ گورننس کی ضرورت ہے وہاں بجلی گیس کے بلوں سے بلبلاتی عوام کے زخموں پر مرہم رکھنا بھی ضروری ہے حکمران حکومت میں آ کر طوطا چشم بن کر عوام سے کئے گئے وعدے بھول جاتے ہیں اور انہیں صرف اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں اس وقت ملک میں بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کے ساتھ ساتھ ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن کے خاتمے کے لئے موثر اور مثبت اقدامات بھی بہت ضروری ہیں اگر ہم نے اپنی نسل نو کو کرپشن فری پاکستان دینا ہے تو سیاسی اور حکومتی ڈھانچے کو بھی بہتر بنانا ہوگا مذہبی اور اخلاقی اقدار کو بھی اجاگر کرنا ہوگا ہم منتخب ہوکر حلف اٹھا کر جن اصولوں کی پاسداری کی بات کرتے ہیں عملی طور پر اس کے برعکس نظر آتے ہیں قول و فعل کے اس تضاد کو ختم کرنا بھی بہت ضروری ہے عالمی سطح پر ہمارا اور ہمارے ملک کا امیج خاصا متاثر ہو رہا ہے اس منفی تاثر کو ختم کرنے کے لئے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور طریقوں کو بدلنا ہوگا اور سب اچھا ہے کے راگ الاپنے کی بجائے حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا ویسے بھی
 خدا نے آ ج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
 نہ ہو جس کو خیال آ پ اپنی حالت کے بدلنے کا
سو آ ج کے موجودہ حالات ہم سب سے یہ تقاضا کر رہے ہیں کہ ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے لکیر کے فقیر بننے کی بجائے حق و سج کی عملی تصویر بن کر ملک کو ترقی کی منازل تک پہنچانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن