بیسویں صدی کا پہلا دوسرا سال ہی ہوگا۔ ہم چند دوست گلشن اقبال پارک گوجرانوالہ کی صنعتی نمائش میں گھوم پھر رہے تھے۔ ان دنوں بھی کالم نگار ہارون الرشید، عمران خان کے سوا اور کوئی بات کرتے ہی نہیں تھے۔ کہنے لگے۔ کل میں نے عمران خان سے فون پر پوچھا، کہاں ہو؟ بولے۔ زمین پر ہوں۔میں نے کہا۔ شکر الحمد للہ۔ چلو ہمارا کوئی ایک سیاستدان تو زمین پر کھڑا ہے۔ اللہ جانے ہارون الرشید کیا کہنااور سمجھانا چاہتے تھے۔ لیکن کوئی بھی تو ان کی بات پر توجہ نہیں دے رہا تھا۔ ہارون الرشید نے عمران خان پر بہت لکھا۔ان کے سبھی کالم عمران خان سے شروع ہو کر عمران خان پر ہی ختم ہوتے تھے۔ اک زمانہ میں جب انہیں کچھ اور نہ سوجھتا تو وہ بنی غالہ کے درو دیوار، محراب و طاق کی دلفریبی پر قلم چلانا شروع کر دیتے۔ اسی زمانہ میں کالم نگار نے ’’نوائے وقت‘‘ ہی میں شائع ہونے والے اپنے اک کالم میں لکھا تھا۔ ’آجکل عمران خان ہارون الرشید کے کالموں کے سواکہیں اور دکھائی نہیں دے رہے‘۔ یہ سچی بات تھی۔ لیکن یہ بھی سچی بات ہے کہ آجکل ہمارے سیاسی منظر نامے پر عمران خان کے سوا کچھ اور دکھائی نہیں دے رہا۔
8فروری کے الیکشن سے عمران خان اور تحریک انصاف کو مائنس کرنے کیلئے ہر طرح کے جتن کئے گئے۔ 9مئی کے واقعہ پر کالم نگار کوئی رائے لکھنا نہیں چاہتا۔ تحریک انصاف عمران خان سے شروع ہو کر عمران خان پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ جماعتی انتخاب نہ کروانے کے جرم میں تحریک انصاف کو ’’سزائے موت‘‘ سنادی گئی۔ جب جماعت کا قانونی وجود ہی نہ رہا تو پھر اس کا انتخابی نشان کہاں رہنا تھا؟ سو اس کا انتخابی نشان ’’بلّا‘‘بھی اس سے چھین لیا گیا۔ پھر نہ ہی اس کا کوئی انتخابی ٹکٹ رہا اور نہ ہی ٹکٹ ہولڈر۔ اس جماعت کے امیدواروں نے آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا۔
کئی حلقوں میں ایک سے زیادہ امیدوار عمران خان اور تحریک انصاف کی حمایت کے دعویدار نکلے۔ اس طرح تحریک انصاف کو بہت نقصان ہوا۔ ’’گھڑی چور‘‘ہماری سیاست میں ایک نیا نعرہ متعارف کروایا گیا۔ اس نعرے کا پس منظر یہ ہے کہ عمران خان نے تحفہ میں ملی ہوئی گھڑیاں توشہ خانہ سے برائے نام قیمت پر خرید کر بیچ ڈالی تھیں۔
پھر خالصتاً نجی مسئلہ عدت بھی شاید پہلی مرتبہ پاکستانی عدالتوں میں رگیدا گیا۔ ہمارے سیاستدانوں کے خلاف غیر سویلین اسٹبیلشمنٹ کا رویہ ہمیشہ سے مخالفانہ ہی رہا ہے۔ انگریز مصنف اسٹینلے وواپرٹ نے قائد اعظم پر لکھی اپنی کتاب میں قائد اعظم کے اسسٹنٹ سی ایم چھاگلہ کے حوالے سے کچھ قابل اعتراض باتیں لکھی تھیں۔ جنرل ضیاء نے اس کتاب پر پابندی لگا دی۔
ضیاء دور کے وزیر تعلیم جوگیزئی نے اکبر احمد کو بتایا کہ ضیاء الحق نے جس کتاب پر پابندی لگائی تھی وہی کتاب اس نے اعتراض شدہ حصوں پر مشتمل صفحوں پر نشان لگا کر مہمانوں میں تقسیم کی تاکہ قائد اعظم کے مقابلے میں ضیاء خود کو متقی، پرہیز گار ثابت کر کے سیاسی فوائد حاصل کر سکے۔
عمران خان کی اپنی جماعت پرانتظامی گرفت ڈھیلی ہونے کے باعث تحریک انصاف کے بہت سے انتخا بی ٹکٹ فروخت بھی ہوئے۔ حلقہ کے ووٹران ان کے نرخوں سے بھی آگاہ تھے۔ لیکن وہ عمران خان کو سات خون معاف کرنے پر اترے ہوئے تھے۔ عمران خان اڈیالہ جیل میں تھے۔ عمران خان بطور قیدی نمبر 804ملک بھر میں بچے بچے کی زبان پر تھا۔سرکار کی جانب سے اور بھی بہت کچھ ہوا لیکن یہ سب کیا دھرا لا حاصل رہا۔ پھر 8فروری کو الیکشن ہوا اور یوں ہوا۔
9فروری کو صبح کالم نگار کا چھ سالہ نواسہ عبداللہ شفاقت، کالم نگار کے بیڈ روم یوں آکر گویا ہوا۔ ’’نانو آپ کا شیر ہار گیا اور میرا عمران جیت گیا‘‘۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کو ملک بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے۔ سافن کے مطابق ان ووٹروں کی تعداد ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ ہے۔ جبکہ ن لیگ نے ایک کروڑ پینتیس لاکھ اورپیپلز پارٹی نے چھیہتر لاکھ ووٹ حاصل کئے۔ میانوالی سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ جمال احسن خاں نے دو لاکھ سترہ ہزار چار سو چوبیس ووٹ لے کرملک بھر میں ریکارڈ قائم کیا۔ پیر صاحب پگاڑا شریف نے کہا ہے ’جو کھچڑی بن گئی ہے، یہ حکومت آٹھ سے دس ماہ سے زیادہ نہیں چل سکے گی‘۔ انہوں نے کہا ’ن لیگ، پیپلز پارٹی اور فنکشنل مسلم لیگ میں ایسے ہی جماعتی انتخابات ہوتے ہیں جیسے تحریک انصاف کے کروائے گئے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ میری نظر میں عمران خان چور نہیں۔ چھوٹی موٹی غلطی ضرور ہوئی ہے۔ یہ ہر بندے سے ہو سکتی ہے۔ یہ چور نہیں ہیں۔ پچھلے حکمران تو توشہ خانہ سے گاڑیاں تک لیتے رہے ہیں۔ اگر عمران خان چور ہے تو ہم سب بھی چور ہیں۔ پیر صاحب نے مزید کہا۔ اگر سیلاب آرہا ہو تو وہ خود اپنا راستہ بنا لے گا۔ دو اڑھائی کروڑ نوجوان لڑکے لڑکیاں نئے ووٹ درج ہوئے ہیں۔ یہ ایک سیلاب ہی تو ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتب گچ گچہ اتنے آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کمال کام کر دکھایا ہے۔
٭…٭…٭